وزیراعلیٰ نے سرکاری آفیسروں سے کہا ہے کہ لوگوں کے ساتھ نزدیکی تال میل بنائے رکھیں ۔ ایک میٹنگ میں اس حوالے سے ہدایات دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے آفیسروں کو یاد دلایا کہ لوگ پچھلے کئی سالوں سے انتظار کررہے ہیں تاکہ انہیں اپنے مسائل پیش کرنے کا موقع ملے ۔ عوامی سرکار بننے کے بعد لوگوں کے لئے اس طرح کا موقع میسر آیا ہے ۔ اس مرحلے پر لوگوں کے خدشات کا ازالہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے ساتھ نزدیکی تال میل بنایا جائے ۔ وزیر اعلیٰ یہاں منی سیکریٹریٹ میں آفیسروں کے ساتھ بات چیت کررہے تھے ۔ اس موقعے پر انہوں نے آفیسروں سے زور دے کر کہا کہ عوام کے خدشات کا فوری اور موثر حل تلاش کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے ایک فعال نقطہ نظر کی ضرورت ہے ۔ آفیسروں کو ذہن نشین کرایا گیا کہ عوامی حکومت بننے کے بعد لوگوں کی توقعات بڑھ گئی ہیں ۔ اس وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں سرکاری آفیسروں کے پاس آئیں گے ۔ وزیراعلیٰ نے آفیسروں کو مشورہ دیا کہ لوگوں کے پاس پہنچنے کی از خود کوشش کریں اور ان کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیں ۔
وزیراعلیٰ اصل میں اپنے حلقہ انتخاب گاندربل میں ترقیاتی کاموں کا جائزہ لے رہے تھے ۔ اس حوالے سے منعقدہ میٹنگ میں کئی سرکاری آفیسر موجود تھے ۔ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے آفیسروں کو ضروری ہدایات دیں اور انہیں لوگوں کے ساتھ قریبی تال میل رکھنے پر زور دیا ۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ وزیراعلیٰ اس بات سے باخبر ہیں کہ مسائل حل کرنے کی کنجی اصل میں سرکاری آفیسروں کے پاس ہے ۔ اس کے علاوہ وزیراعلیٰ موجودہ مرحلے پر عوام کی خواہشات اور ان کے توقعات سے بھی باخبر ہیں ۔ تاہم یہ بات بڑی اہم ہے کہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے صرف زبانی ہدایات یا کاغذی کاروائی کافی نہیں ہے ۔ لوگ پچھلے کئی سالوں سے ایسی بیروکریسی کو دیکھ رہے ہیں جو ان کے ساتھ کوئی جذباتی وابستگی نہیں رکھتے ہیں ۔ بلکہ اپنی ڈیوٹی پورا کرتے ہوئے لوگوں کے مسائل سن رہے ہیں ۔ بلکہ اس حوالے سے ضروری ہدایات بھی دے رہے ہیں ۔ اس دوران ایل جی نے از خود لوگوں سے نزدیکی تعلق پیدا کرنے کے لئے عوامی دربار منعقد کئے ۔ فوننگ پروگراموں کا سہارا لے کر عام لوگوں کے مسائل سنے گئے ۔ بلکہ کئی موقعوں پر موجود آفیسروں سے اس حوالے سے پوچھ تاچھ بھی کی گئی ۔ ان پروگراموں سے مبینہ طور بہت سے لوگوں کے مسائل احسن طریقے سے حل بھی ہوئے ۔ اس کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ لوگوں نے اپنے نمائندے چننے کے لئے ووٹ ڈالے تاکہ ان کے اپنے نمائندے آگے جاکر ان کے مسائل حل کریں ۔ اب تک کا تجربہ یہی ہے کہ ایسے عوامی نمائندے الیکشن میں کامیاب ہوکر بہت کم واپس لوگوں کے مسائل سننے کے لئے اپنے حلقے کے عوام کے پاس آتے ہیں ۔ بلکہ ان عوامی نمائندوں کی یہ عیب رہی ہے کہ اپنے ووٹروں کے بجائے آفیسروں کو خوش کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔ آفیسر سیاسی لیڈروں کو شیشے میں اتارنے کے بڑے ماہر ہیں ۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی حلقوں میں کون لوگ زیادہ اثر و رسوخ کے مال ہیں اور کن کی بات زیادہ سنی جاتی ہے ۔ یہ لوگ انہی لیڈروں سے جان پہچان بناکر ان کا طواف کرنے لگتے ہیں ۔ بعد میں ایسے سیاسی لیڈر نہ ہی بیروکریسی کے ایسے اہلکار عوام کے مسائل حل کرنے کا کام کرتے ہیں ۔ ایسے آفیسر کبھی کبھار ہی اپنے دفتروں میں جاکر لوگوں کے مسائل سنتے ہیں یا کسی سائل کی فائل دیکھنے کی زحمت کرتے ہیں ۔ اب یہاں سرکاری دفتروں میں یہ بھی کلچر بن گیا ہے کہ چوتھے درجے کے ملازم بھی اپنے لئے سیاسی سرپرست رکھتے ہیں ۔ میونسپلٹی کے خاکروبوں کے علاوہ دفتروں کے چپراسی اور کلرک تک اوپر تک رسائی رکھتے ہیں ۔ ایسے ملازم اپنے آفیسروں میں خاطر لاتے ہیں نہ لوگوں کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھتے ہیں ۔ ایل جی سرکار میں ایسا ممکن نہیں تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری دفتروں میں اکثر لوگوں اور آفیسروں کے درمیان جھگڑے ہوتے رہتے تھے ۔ سرکاری اہلکار کسی عام شہری کا مسئلہ سننا اپنے لئے ہتک کا معاملہ سمجھتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ تنخواہ پانے کے بعد یہ عوام کے خادم نہیں بلکہ ان کے مالک بن گئے ہیں ۔ اس طرح کے ماحول میں بہت مشکل ہے کہ سرکاری آفیسر لوگوں کے ساتھ تال میل بنانے کی کوشش کریں گے ۔ اگر وزیراعلیٰ واقعی چاہتے ہیں کہ سرکاری آفیسر عوام کی خدمت کریں تو اس کے لئے ایسا نظام بنانا ہوگا جہاں ہر سرکاری اہلکار کو جوابدہ بنایا جاسکے ۔ نظام ہی بگاڑ کا شکار ہوگا تو آفیسروں کو محض ہدایات دے کر عوام کی خدمت پر مائل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
