ڈاکٹر جی ایم بٹ
پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے نام ایک خط لکھا ہے ۔ اس خط میں ان سرکاری ملازموں کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے جنہیں ایل جی انتظامیہ نے ملک دشمن قرار دے کر نوکریوں سے برطرف کیا ۔ محبوبہ مفتی نے مشورہ دیا ہے کہ وزیراعلیٰ ایک کمیٹی تشکیل دے کر نوکریوں سے نکالے گئے ملازموں کے کیسوں کا از سر نو جائزہ لے ۔ محبوبہ مفتی نے اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر انکشاف کیا کہ وزیراعلیٰ سے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دینے کی اپیل کی گئی ہے ۔ تاکہ ملازموں کی جبری برطرفی کے کیسوں کی دوبارہ جانچ کی جاسکی ۔ ان کا الزام ہے کہ ایسے ملازموں کے اہل خانہ سخت مشکلات اور مالی مسائل کا شکار ہیں ۔ وہ امید کرتی ہیں کہ ان ملازموں کے ساتھ انصاف سے کام لیا جائے گا اور انہیں ان کا حق واپس دیا جائے گا ۔ سوموار کو لکھے گئے اس خط میں کہا گیا ہے کہ برطرف کئے گئے ملازموں کو اپنی صفائی کا کوئی موقع نہیں دیا گیا بلکہ اچانک انہیں ناجائز سرگرمیوں کا مرتکب قرار دے کر نوکریوں سے نکالا گیا ۔ محبوبہ مفتی کی نظر میں یہ صحیح طریقہ نہیں ۔ انہوں نے اس حوالے سے پلوامہ کے ایک کیس کا حوالہ دیا جہاں مبینہ طور برطرف کئے گئے ایک ملازم کی موت ہوئی اور اس کے بیوی بچے اب نان شبینہ کے محتاج بتائے جاتے ہیں ۔ پی ڈی پی صدر نے وزیراعلیٰ کے نام خط لکھ کر انہیں جبری بر طرفی کا شکار بنائے گئے ملازموں کے کیسوں کا جائزہ لینے پر زور دیا ہے ۔انہوں نے اسے انسانی حقوق اور سماجی ضرورت کا مسئلہ قراردے کر اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے پر زور دیا ہے ۔
محبوبہ مفتی کا خط وزیراعلیٰ تک پہنچا ہے کہ نہیں اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے ۔ وزیراعلیٰ نے اس پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔ محبوبہ مفتی کا یہ خط سیاسی حلقوں میں بڑا ہی اہم سمجھا جاتا ہے ۔ خط میں ایک ایسا مسئلہ اٹھایا گیا ہے جس پر ایل جی انتظامیہ کے علاوہ مرکزی سرکار نے سخت موقف اختیار کر رکھا ہے ۔ پانچ سالوں کے دوران ساٹھ ستھر سرکاری ملازموں کو ان کی نوکریوں سے نکالا گیا ۔ ان پر الزام ہے کہ یہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں ۔ ایسے ملازمین کوآرٹیکل (311) ٹوسی کے تحت ان کی نوکریوں سے نکالا گیا ۔ 2019 میں جموں کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد انتظامیہ نے جہاں علاحدگی پسندی کو قابو میں کرنے کی غرض سے کئی سخت اقدامات کئے وہاں ان درجنوں سرکاری ملازموں کو نوکریوں سے نکالا گیا جن پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے ۔ ایسے ملازموں کے جرائم یا کسی طرح کے ناجائز کاموں کا حوالہ دئے بغیر سرکار نے انہیں برطرفی کے آڈر دے کر انہیں گھر پر بٹھایا ۔ معلوم ہوا ہے کہ ایسے کئی سرکاری ملازموں کے خلاف پہلے سے پولیس کے پاس مقدمات درج ہیں یا انہیں کئی طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا ۔ تاہم برطرف کئے جانے کے وقت پر انہیں ایسے کسی غیر قانونی کام کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ جموں کشمیر میں2019 سے پہلے بھی نوکریوں سے برطرف کئے جانے کے اکا دکا واقعات پیش آئے ہیں ۔ تاہم ایسے موقعوں پر اخراج شدہ ملازموں کو ان کی غلطیوں یا جرائم سے واقف کرایا جاتا تھا ۔ ایل جی انتظامیہ کی طرف سے ایسا کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا اور انہیں بیک جنبش قلم نوکریوں سے چھٹی کی گئی ۔ اب نئی سرکار کا اس معاملے میں کوئی رول بنتا ہے کہ نہیں ۔ وزیراعلیٰ اپنے بل بوتے پر اس حوالے سے کوئی کاروائی کرسکتے ہیں یا نہیں ۔ رائے دینا مشکل ہے ۔ تاہم محبوبہ مفتی کی طرف سے لکھے گئے خط نے حکومت کے لئے ایک بڑا مسئلہ کھڑا کیا ہے ۔ حکومت کے لئے اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرنا مشکل ہے ۔ الیکشن کے دوران محبوبہ مفتی نے پی ڈی پی کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں ان ملازمین کو دوبارہ بحال کئے جانے کا یقین دلایا تھا ۔ لیکن پارٹی محض تین نشستوں کے جیتنے کے علاوہ کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کرسکی ۔ اس کے بجائے این سی نے انتخابات میں بڑی جیت درج کرکے حکومت تشکیل دی ۔ اب پی ڈی پی کی کوشش ہے کہ حکومت کو آزمائشوں میں ڈالا جائے ۔ پہلا دائو اس وقت کھیلا گیا جب اسمبلی کا پہلا سیشن شروع ہوا ۔ اسمبلی کے اس سیشن کے اول روز ہی پی ڈی پی ممبروں نے ایوان میں دفعہ 370 کی بحالی کا ریزولیشن لایا جس پر بحث کرانے سے اسمبلی کے اسپیکر نے انکار کیا ۔ بعد میں این سی کی طرف سے ایک ریزولیشن لاکر اس کو پاس کرایا گیا ۔ دونوں موقعوں پر اسمبلی میں سب سے بڑی اپوزیشن بی جے پی کی طرف سے سخت احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی گئی ۔ بی جے پی کے ممبران نے دھمکی دی کہ حکومت کا ایسا ہی رویہ رہا تو وہ حکومت چلنے نہیں دیں گے ۔ بلکہ اپنی متوازی حکومت تشکیل دینے کی دھمکی بھی دی گئی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت سخت پریشانی سے دوچار ہے ۔ وزیراعلیٰ نے اس موقعے پر کہا کہ پی ڈی پی کی اسمبلی میں قرارداد محض میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لئے لائی گئی ۔ اب محبوبہ مفتی نے جو نازک مسئلہ اٹھایا ہے یقینی طور اس سے حکومت ایک نئی آزمائش سے دوچار ہوسکتی ہے ۔ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے جس پر ہاں یا ناں کہنا حکومت کے لئے بڑا مشکل معاملہ ہے ۔ اس وجہ سے حکومت گھیرے میں آتی دکھائی دیتی ہے ۔
