جہاں زیب بٹ
عبداللہ حکومت کے قیام کے بعد خونریز کارواییوں کاسلسلہ وار چکر چلا اور پانچ سال کے سکوت اور سکون کے بعد پہلی بار بھیڑ بھا ڑ والے بازار میں ہتھ گولہ پھینکنے کا دہشت ناک واقعہ رونما ہو ا ۔3 نومبر کو ناید کھیے سنبل باندی پورہ کی جوان سال خاتون عابدہ گرم ملبوسات کی خریداری کے سلسلے میں سرینگر کے سنڈے مارکیٹ ایی جہاں شرپسندوں نے گرنیڈ داغا جس میں ایک درجن زخمی شہریوں میں عابدہ بھی شامل تھی جو نو روز تک موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی ۔عابدہ زبیر احمد لون کی شریک حیات تھی اور وہ اپنے پیچھے تین ننھے بچوں کو چھو ڑ گیی۔
عابدہ کی موت ناگہانی آفت ہے ۔بربریت پر مبنی ان سلسلہ وار کارواییوں میں سے ایک ہے جو گزشتہ پینتیس سال کے دوران انسانی المیوں کی ایک سے بڑھکر ایک دلخراش داستان رقم کر چکی ہیں۔کشمیر کی مسلح جنگ کی کروٹیں عجیب وغریب رہیں ۔اس کا کویی مقررہ نشانہ نہ تھا ۔پہلے پہل فوج نشانہ تھی پھر آپسی تصادم آرایی کا بازار کرم رہا ۔جلد ہی بازاروں میں گرنیڈ پھینکنے کا رواج شروع ہوگیا ۔پھر سیاسی انتقام پر مبنی قتل وغارت کا سایکلون چلا ۔اس کے بعد ٹارگٹ کلنگس ہو نے لگیں اب بہاری مزدور تہہ تیغ کر نے کی کارواییاں انجام دے کر خوف ودہشت کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔
ملی ٹینسی کے نشانے بدلنے اور شہری اور ٹارگٹ کلنگس کا دور شروع ہو نے کے ساتھ ہی عام لوگوں میں مایوسی پیدا ہو یی اور بتدریج ان کی سوچ میں نمایاں تبدیلی واقع ہو یی جب یہ حقیقت ابھر کر سامنے آگیی کہ ملی ٹینسی کا کویی مثبت پہلو نہیں ہے۔یہ انسانی جانوں کا زیاں ہے ،خودکشی ہے ،اجتماعی مفاد کی دشمن ہے۔اس نے قبرستان بھر دیے ۔بیواوں اور یتیم بچوں کی فصل تیار کی،نفرت بویی اور گھمبیر سماجی اور سیاسی مسایل پیدا کیے۔ زمینی حقایق کا ادراک
ہو نے کے ساتھ ہی عسکریت پسند کو ملنے والی اخلاقی اور عوامی حمایت قریب قریب ختم ہو گیی ۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ ماضی کے برعکس اب سیاسی لیڈر ،صحافی ،قلمکار ،مولوی ،مولانا ،دکاندار، تاجر غرض سماج کا تقریباًً ہر طبقہ خونریز کارواییوں کے بارے دوٹوک اور منصفانہ موقف اختیار کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔پہلے پہل جن جنگبازوں کی پیٹھ تھپتھپایی جاتی تھی اور جن کو ہیرو اور فرشتے گردانا جا تا تھا ان سے جان چھڑایا جارہا ہے اور ان کو مصایب کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔پہلے تشدد آمیز کارواییوں میں کام آنے والوں کو دو مختلف خانوں میں تقسیم کیا جاتا تھا اور اس کی بنیاد پر مہلوک کے بارے موقف اختیار کیا جاتا تھا۔ لیکن یہ عسکریت سے جان چھڑانے کی یہ بڑی دلیل نہیں تو اور کیا ہے کہ آج میر واعظ عمر فاروق تک گگن گیر اور بوٹہ پتھری گلمرگ حملوں کی مذمت کرتے وقت امتیازی اصول اپنانا پسند نہیں کر تے۔انسان انسان ہے اس کی جان قیمتی اور محترم ہے ۔لیکن ابتدایی برسوں میں کشمیری لیڈروں خصوصاً حریت بلکہ بعض صحافیوں اورقلمکاروں سے لیکر دکانداروں تک کو انسانی خون کےحوالے سے آنکھوں پر دو عینک لگایے محسوس کیا گیا اور ہلاکتوں کے بارے دوہرا معیار اپنا یا گیا ۔اس سےصرف دہشت گردانہ کارواییوں کے لیے زمین ہموار ہو گیی اور کشمیری ماتھا پیٹنے لگا اور دل ھی دل میں پیچیدہ اور جانگسل حالات سے نکلنے کا خواستگار ہو گیا۔ باجپا حکومت سے عوام کی ناراضگیوں کی کچھ اور وجوہات ہیں ورنہ عوام کی کثرت سنگ بازی، ہڑتالی کلچر ،درپردہ جنگ اور بے ڈھنگی حریت سے نجات دلانے کا کارنامہ انجام دینے پر مرکزی سرکار کا برملا شکریہ ادا کرتے۔کشمیر کی صورتحال کافی حد تک قابو ہو نے کے بعد الیکشن منعقد ہو یے ۔مقامی طور پر اپنی حکومت بنی ۔اس سے جنگ وجدل کا جواز ختم ہو گیا ۔مسایل کے حل کے لیے افہام و تفہیم ہے عقل ہے زبان ہے اس کے علاوہ کو یی ہتھیا ر محفوظ ہےنہ معتبر۔
پنتیس سالہ کشت وخون کا حاصل صفر نکلا ۔فبرستان بنے لو گ کٹے ،گھر اجڑے اور آخر کار جموں کشمیر یو ٹی درجہ پر گرادیا گیا ۔اب عوامی حکومت کی صورت میں لوگوں کو سہارا ہاتھ آیا آواز مل گیی لیکن امن دشمن زمینی حقایق تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔یہ نری جہالت ہے ۔جو آفت لایی اور آفت ہی لاسکتی ہے۔ کبھی مشیر الحق کے قتل کی صورت میں اور کبھی جواں سال عابدہ کو ابدی نیند سلا نے کی صورت میں۔خون ناحق پر منافقانہ خاموشی نے ہمیں بے حد نقصان پہنچا یا ۔جسے ہم نے مصلحت کہا وہ ظلم تھا اور اجتماعی ظلم کی جو سزا ہے اس پر اللہ کی توبہ۔
