از:جہاں زیب بٹ
خصوصی اختیارات کا استعمال کر تے ہو یے ایل جی منوج سنہا نے عین اس وقت دو سرکاری ملازمین عبدالرحمان نائیکا اور ظہیر عباس کو نوکری سے چلتا کردیا جب وزیراعلی عمر عبداللہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد سعودی سے واپس دلی کی طرف آرہے تھے۔ مذکورہ دو ملازمین کودہشت گردی کے ساتھ مبینہ روابط کے الزام میں برطرف کیا گیا ہے۔یہ کاروائی خصوصی ایکٹ 311کے تحت عمل میں لائی گئی جس میں ایل جی کا مطمئن ہو نا ہی کافی ہے اور اس کے بعد کسی مزید تحقیقات بٹھا نے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی قصوروار کو قانونی طور دفاع کا حق ہو تا ہے۔
اگرچہ ایل جی حکمرانی میں ساٹھ سے زیادہ ملازمین دہشت کردی کی مبینہ حمایت اور روابط کے الزام میں نوکریوں سے نکالے جاچکے ہیں تاہم عمر عبداللہ حکومت بننے کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے جس میں دو ملازمین کو قوم دشمنی کے الزام میں نوکری سے محروم کیا گیا ہے۔پہلے بھی اس پر ہلکا سا ردعمل سا منے آیا کرتاتھالیکن اب کی بار ردعمل ذرا سخت ہے اور اپوزیشن خیمے کو عمر عبداللہ پر نشانہ سادھنے کانادر موقعہ ہاتھ آیا ہے۔ کئی سیاسی لیڈروں نے ملازمین کی برطرفی کو روکنے کے لیے عمر عبداللہ کی مداخلت طلب کی ہے ۔پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون نے ملازمین کی برطرفی کو لیکر عمر عبداللہ کو گھیرتے ہو یے سوال کیا ہے کہ الیکشن کے دوران عمر عبداللہ کا جو جارحانہ لب ولہجہ تھا وہ آج غائب کیوں ہو گیا ہے ۔انھوں نےچیف منسٹر کو اس اشوع پر سخت موقف اختیار کر نے کا مشورہ دیتے ہو یے کہا ہے ان کو عوام نے کسی خاص چیز پر منڈیٹ دیا ہے ۔لہذاان کو جاکر کشمیریوں کے لیے لڑنا چاہیے۔پی ڈی پی کے یوتھ لیڈر وحید الرحمان پرہ نے ملازمین کی برطرفی کی کاروایی پر سوال اٹھا تے ہو یے کہا ہےکہ حکومت خود ہی منصف ،جیوری اور سزا دینے والی بنتی ہے اور متاثر شخص کی بات نہیں سنتی۔عوامی اتحاد پارٹی شیخ خورشید نے ملازمین کی برطرفی کو بدنصیبی قرار دیتے ہو یے سوال کیاکہ کیا عمر عبداللہ نے ان معاملات پر پوچھے بغیر ہی ایل جی کی تقریر کو منظور کیا ہے۔ملازمین کی برطرفی ایسے حساس اشوع پر میرواعظ عمر فاروق بھی چپ سادھ نہ لےسکے ۔انھوں نے الزام لگایا کو دو ملازمین کو قانونی لوازمات کے بغیر بہ یک جنبش قلم نوکری سے نکال کر سخت جاڑے سے پہلے اہل خانہ کو روزی روٹی سے محروم کیا گیا ۔میرواعظ نے عمر عبداللہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان تمام ملازمین کو بحال کرے جو ان کے بقول ناانصافی پر مبنی طریقہ کار کے ذریعے نوکری سے نکالے گئےہیں۔
وادی کشمیر میں جڑیں رکھنے والی علاقائی جماعتوں کے مؤقف کے برعکس سرکاری حلقوں کا دعویٰ ہے کہ جن ملازمین کو نوکری سے نکالاگیا وہ کسی نہ کسی اعتبار سے دہشت گردی کے ماحولیاتی نظام کا حصہ تھے۔تازہ کاروئی میں نشانہ بننے والے دو ملازمین کا چارج شیٹ بھی دیا گیا ہے۔دیو سر کے میڈیکل اسسٹنٹ عبدالرحمان نا ئیکا کے بارے کہا جارہا ہے کہ وہ 1992میں ملازم بنا مگرا س نےحزب المجاھدین کے ساتھ روابط استوار کیے ۔یہ بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ 2021 میں دیوسر کارہنے والا ایک قو پرست شخص غلام حسن لون مارا گیا جس کے تین بیٹے فورسز میں کام کرتے ہیں ۔تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ نائیکا مقتول کے قتل کی منصوبہ سازی میں ملوث تھا۔چنانچہ پولیس رپورٹ کے مطابق نائیکا ایک خطرناک بالاے زمین کارکن ہےاور دہشت گردوں کا معاون ہے۔بدھت سرور کشتواڑ کے رہنے والےظہیر عباس کے بارے کہا جارہا ہے کہ وہ2012 میں ٹیچر منتخب ہوا۔پولیس رپورٹ میں اس پر غداری کا الزام ہے۔موصوف کو 2021میں گرفتار کیا گیا کیو ں کہ اس نے حزب کے تین دہشت گردوں کو گھر میں پناہ دی تھی۔گرفتاری کے بعد اس کی نشاندہی پر دو بالاے زمین کارکنوں گلزار اور حنیف کو گرفتار کیا گیا اور کمین گاہوں سے ہتھیار پکڑے گیے ۔چنانچہ دیشت گردی کا معاون ہو نے کی پاداش میں ظہیر عباس اس وقت کورٹ بلوال جیل میں بند ہے۔اس طرح کی وضاحت دے کر حکومت برطرفی کی کاروائی کو حق بجانب قرار دے رہی ہے ۔سیکورٹی ماہرین مقامی سیاستدانوں کے شو رو غوغا کو مسترد کرتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ انھیں علاحدگی پسندوں کے جھولوں میں بیٹھنے کی عادت پڑی ہے۔سرکار کے برعکس سیاسی لیڈر متاثرین کو منصفانہ دفاع کا حق دینے کی وکالت کررہے ہیں ۔
ملازمین کی برطرفی ایل جی کے دستخط سے انجام پائی ہے لیکن ہدف تنقید عمر عبداللہ بن رہے ہیں ۔کیو ں کہ انھوں نے الیکشن کے دوران برخواست شدہ ملازمین کے معاملات کا جائزہ لینے کا وعدہ کیا ہے۔ ان کے اقتدار میں مزید برطرفی نہ رکنے کا نتیجہ یہ ہے کہ اپوزیشن یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ عمر عبداللہ حکومت ناکامی سے دوچار ہے۔عمر عبداللہ کو انھیں غلط ثابت کر نے کا چلینج درپیش ہے ۔وہ ناامیدی میں امید کی روشنی بننے کے امتحان سے دو چار ہیں ۔