ہلدی کھانوں کا لازمی جزو ہے جس کا استعمال نہ صرف کھانوں میں ذائقے بلکہ ان کو خوش نما رنگ دینے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔کھانے میں ہلدی کا استعمال انسانی جسم میں سوزش اور جراثیم کے خاتمے اور وباؤں کی روک تھام کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔
لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہلدی کا اصل رنگ زرد نہیں بلکہ سنہری ہوتا ہے اور اس ضمن میں جانکاری رکھنے والے لوگ اسے خریتے وقت اس کے رنگ کو ہی مدِنظر رکھتے ہیں۔
لیکن جہاں ہلدی کے بہت سے طبی فائدے ہیں وہیں اس میں ہونے والی ملاوٹ سے انسانی صحت پر مضر اثرات پڑ سکتے ہیں۔
یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیسے پتا کیا جائے کہ جو ہلدی آپ اپنے کھانوں میں استعمال کر رہے ہیں وہ ملاوٹ سے پاک ہے؟ اس سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے بی بی سی نے ماہرین سے بات کی ہے۔
ہلدی میں ملاوٹ کیسے ہوتی ہے؟
ہلدی کے پاؤڈر میں ملاوٹ کے لیے نشاستہ، ادرک کی جڑیں اور آرٹیفشل رنگ جیسی اشیا کا استعمال کیا جاتا ہےبین الاقوامی مارکیٹ میں ہلدی کی مانگ بہت زیادہ ہے اور اسی وجہ سے تاجر منافع بڑھانے کے لیے اس میں ملاوٹ کرتے ہیں۔
ہلدی کے پاؤڈر میں ملاوٹ کے لیے نشاستہ، ادرک کی جڑیں اور آرٹیفشل رنگ کا استعمال کیا جاتا ہے۔گذشتہ 30 برسوں سے گجرات میں غذائی اجزا پر ریسرچ کرنے والے اتُل سونی نے بی بی سی کو بتایا کہ ہلدی میں ملاوٹ کرنے کا بنیادی مقصد پیسہ بنانا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہلدی میں ’ملاوٹ کرنے کا پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ اس میں آٹا یا نشاستہ ملا دیا جائے۔‘’دوسرا طریقہ ہے کہ چند تاجر اچھی کوالٹی کی ہلدی میں اکثر ناقص کوالٹی کی ہلدی ملا دیتے ہیں تاکہ اس کی مقدار بڑھائی جا سکے۔ جبکہ تیسرا طریقہ ہے کہ ہلدی کی کوالٹی کو مزید بہتر دکھانے کے لیے اس کے رنگ کو مزید نکھار دیا جائے جو کہ ہلدی میں مصنوعی رنگ شامل کرنے سے ہوتا ہے۔‘
اتُل سونی کہتے ہیں کہ ہلدی میں مصنوعی رنگ شامل کرنے والے شاید نہیں جانتے کہ ’آرٹیفشل رنگ میں کرومیٹ کے اجزا شامل ہوتے ہیں۔‘
ملاوٹ کے دوسرے طریقوں پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہلدی کا کام کرنے والے اس کی تیاری کی قیمت کو کم کرنے کے لیے اس میں ایک آئل کا استعمال کرتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ سرطان جیسے مرض کا باعث بن سکتا ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’ہلدی کا کوئی مخصوص رنگ نہیں ہوتا، اسی لیے صرف دیکھ کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ ملاوٹ زدہ ہے یا خالص۔‘
لیڈ کرمیٹ نامی کیمیکل کا استعمال ہلدی کے رنگ کو مزید سنہرا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ دراصل دو کیمیلکلز لیڈ اور کرومیم کا مرکب ہے جسے ہلدی کی رنگت میں اضافے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اسی کیمیکل کا استعمال ہلدی کی جڑوں کو مزید سنہرا کرنے اور اس کا وزن بڑھانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ لیڈ پوائزننگ کے کیسز انڈیا میں سامنے آتے ہیں۔محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ لیڈ کرومیٹ سے گُردوں اور دماغ پر اثر پڑتا ہے اور اس سے بچوں کی دماغی نشونما بھی رُک سکتی ہے۔لیڈ پوائزننگ سے بچوں کی دماغی حالت پر ایسے اثرات بھی پڑ سکتے ہیں جس سے ان کی سوچنے و سمجھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ اس سے ملک کی معاشی اور معاشرتی صورتحال پر بھی اثر پڑتے ہیں۔
