سرینگر،20اگست:
جموںوکشمیر نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری ایڈوکیٹ حاجی علی محمد ساگر پارٹی ہیڈکوارٹر پر ایک پُرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کی طرف سے زیارتگاہوں اور خانقاہوں کے معاملات میں مداخلت کو ایک المیہ اور بڑی سازش کا حصہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کسی بھی صورت میں یک طرفہ فیصلہ لیکرسبھی لوگوں کو ایک ہی ترازو میں تول کر یہاں کے سجادہ نشین و متولی حضرات، علمائے کرام اور پیر حضرات پر انگلی نہیں اُٹھاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کو لگتا تھا کہ کہیں پر زبردستی عطیہ وصول کیا جارہا ہے تو اُس کی نشاندہی کی کرکے اُن کیخلاف باضابطہ طور پر کارروائی ہوسکتی تھی لیکن یہاں حکومت نے ایک پورے طبقے کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔
ساگر نے کہا کہ حکومت کو اس قسم کا کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے ایک وسیع مشاورت کرنے تھی ، جس میں سبھی متعلقین کی آراء جاننے کی کوشش کرنی تھی اور تب ہی جاکر اُن مخصوص مقامات پر کارروائی کرنی چاہئے تھی جہاں مبینہ طور پر زبردستی عطیہ وصول کرنے کی شکایتیں موصول ہوئی تھیں لیکن یہاں تاناشاہی راج کی ایک اور مثال پیش کرکے بیک جنبش قلم عطیہ دینے پر پابندی عائد کی گئی جو عمل یہاں صدیوں سے جاری ہے اور عقیدے کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذہبی معاملات بیروکریسی نہیں ہے کہ من چاہئے طور پر فیصلے مسلط کئے جائیں۔ ساگر نے کہا کہ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے جب مسلم اوقاف ٹرسٹ کی بنیاد ڈالی ، انہوں نے اُس وقت سبھی زیارتگاہوں کو یکجا کیا لیکن وہاں کے منصب داروں اور پیر حضرات کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیںکی گئی۔ اس موقعے پر ترجمانِ اعلیٰ تنویر صادق، ترجمان عمران نبی ڈار، صوبائی سکریٹری ایڈوکیٹ شوکت احمد میر اور اقلیتی سیل کے کنوینیر جگدیش سنگھ آزاد بھی تھے۔
