برطانیہ کی جیل میں قید کی سزا کاٹنے والے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے خود سے 12 سال کم عمر منگیتر اسٹیلا مورس سے شادی کرلی۔خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جولین اسانج اور اسٹیلا مورس کی شادی کی محدود تقریب میں دو عہدیداروں اور دو گارڈز پر مشتمل 4 مہمانوں نے شرکت کی۔
خیال رہے کہ جولین اسانج برطانیہ کی جیل میں قید کی سزا کاٹ رہے ہیں جبکہ امریکی حکام ایک دہائی قبل امریکی فوجی خفیہ ریکارڈز اور کئی سفارتی راز منظرعام پر لانے سے متعلق معاملات پر ان کی حوالگی چاہتے ہیں۔جولین اسانج کی دلہن اسٹیلا مورس نے شادی ی تقریب کے بعد بیلمارش جیل کے دروازے کے باہر بتایا کہ ‘میں بہت خوش اور مایوس بھی ہوں، جولین اسانج سے بھرپور محبت کرتی ہوں، کاش وہ یہاں ہوتے’۔آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ جولین اسانج 2019 سے جنوب مشرقی لندن کی جیل میں موجود ہیں جبکہ وہ جرم سے انکاری ہیں، اس سے قبل وہ برطانیہ کے درالحکومت میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں 7 سال تک موجود رہے۔
ایکواڈور کے سفارت خانے میں موجودگی کے دوران اسٹیلا مورس سے ان کے تعلقات قائم ہوئے اور اس دوران ان کے ہاں دو بچوں کی پیدائش بھی ہوئی۔اسٹیلا مورس ان سے 12 سال کم عمر ہیں اور دونوں کی ملاقات 2011 میں اس وقت ہوئی جب انہوں نے جولین اسانج کی قانونی ٹیم کے ساتھ کام شروع کیا۔دونوں کے درمیان 2015 میں تعلق بنا اور اس وقت وہ ایک ایسی جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں جہاں برطانیہ کے بدترین مجرمان قید ہیں، جن میں بچوں کے قاتل آئن ہنٹلے بھی شامل ہے۔
شادی تقریب کے بعد مہمانوں کو فوری طور پر جانے کو کہا گیا تاہم تقریب کے لیے اسٹیلا مورس اور جولین اسانج نے برطانیہ کے فیشن ڈیزائنر ویویئن ویسٹ ووڈ کا تیار کردہ لباس زیب تن کیا ہوا تھا، جو ان کے بے دخلی کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ویسٹ ووڈ نے اپنے پیغام میں کہا کہ میرے لیے جولین اسانج نفیس انسان اور حریت پسند ہیں۔اسٹیلا مورس نے جیل کے باہر شادی کا کیک کاٹا اور حامیوں سے خطاب کیا جو اس وقت وہاں جمع ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں جس وقت سے ہم گزر رہے ہیں وہ ظلم اور غیرانسانی ہے، ہم ایک دوسرے سے جتنی محبت کرتے ہیں وہ ہمیں اس دور سے نکال لے گا۔جولین اسانج کے بارے میں انہوں نے کہا کہ دنیا کے بہترین آدمی ہیں، وہ شان دار انسان ہیں انہیں آزاد ہونا چاہیے۔جولین اسانج کو رواں ماہ کے اوائل میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہیں برطانیہ کی سپریم کورٹ میں ان کی بے دخلی کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔تاہم وہ اب بھی اپنی بے دخلی کے حکومتی فیصلے کو چیلنج کرسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ نومبر 2010 میں سویڈن نے جولین اسانج کے بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، اس سے قبل ان سے جنسی ہراساں اور ریپ کے الزامات پر سوالات کیے گئے تھے تاہم انہوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ خفیہ امریکی دستاویزات کو شائع کرنے پر انہیں سویڈن سے امریکا کے حوالے کردیا جائے گا۔بعد ازاں دسمبر 2010 میں جولین اسانج نے برطانوی پولیس کے سامنے سرنڈر کیا تھا لیکن وہ 10 روز کی ضمانت پر رہا ہوگئے تھے تاہم حوالگی کی کارروائی کو چیلنج کرنے میں ناکامی کے بعد انہوں نے ضمانت کی خلاف ورزی کی تھی اور فرار ہوگئے تھے۔جس کے بعد اگست 2012 میں ایکواڈور کی جانب سے انہیں سیاسی پناہ دی گئی تھی اور اس کے بعد سے انہیں لندن میں قائم ایکواڈور کے سفارتخانے منتقل کردیا گیا تھا۔