تحریر :محمد اشفاق
خطہ چناب کی آبادی کا لگ بھگ پچاسی فیصد حصہ دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے اور ان میں سے اکثر علاقوں کے لوگ آج بھی قدیم طرز کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جن میں اکثر لوگوں نے زمانے کو کروٹ بدلتے ہوئے دیکھا لیکن اپنے گاؤں دیہات کی حالت کو کبھی سدھرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ خطہ چناب کے تینوں اضلاع بشمول ڈوڈہ، کشتواڑ اور رام بن میں دور دراز دیہی علاقے اکیسویں صدی کے اس دور میں ترقی کی دوڑ سے کوسوں پیچھے ہیں۔جن میں سے اکثر دیہات ابھی تک سڑک رابطے، بجلی، اور ذرائع مواصلات سے بھی محروم ہیں۔خطہ چناب کے ان دور دراز اور پسماندہ دیہات میں سے ضلع کشتواڑ کے بلاک درابشالہ میں واقع گاؤں ٹٹانی بھی شامل ہے، یہ گاؤں آج بھی اٹھارویں صدی کے کسی بے ڈھنگے اور بے ہنگم گاؤں کی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس گاؤں کی آبادی چھ ہزار سے متجاوز ہے اور یہاں کے زیادہ تر لوگ مزدوری پیشہ ہیں۔
اس گاؤں میں بنیادی سہولیات کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ پانی کا نظام بہتر طریقے سے کام کر رہا ہے اور نہ ہی بجلی کا نظام۔ اس کے علاوہ یہاں کا تعلیمی نظام بھی کافی ناقص ہے، جس کا سیدھا اثر یہاں کے بچوں پر پڑتا ہے۔ نتیجتاً یہاں پر ناخواندگی کی شرح گھٹنے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ناخواندگی کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے یہاں کی عوام انتہائی پچھرے پن کا شکارہے۔ جس کا سیدھا اثر یہاں میسر بنیادی سہولیات پرپڑتا ہے۔ عوام ناخواندہ ہونے کی وجہ سے بنیادی سہولیات کیلئے آواز اٹھانے سے قاصر ہے۔ایک مقامی سماجی کارکن خورشید احمد نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے بتایاکہ اس گاؤں کے بیشترافرادمزدوری کرتے ہیں اور وہ ہنوز تعلیم کی اہمیت سے نابلد ہیں۔ جس کا اثر ان کے بچوں کی تعلیم پر پڑتا ہے کیوں کہ پڑھائی کی اہمیت سے نابلد ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم پر زیادہ دھیان نہیں دیتے ہیں۔ وہ اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے ہیں۔جب وہ تعلیم کی اہمیت سے ناواقف ہیں تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ اپنی بچیوں کی تعلیم کے لئے کتنے سنجیدہ ہونگے؟یہی وجہ ہے کہ اس گاؤں میں خواتین کی شرہ خواندگی کافی تشویشناک ہے۔ یہاں کے اسکولوں کی عمارتیں بھی انتہائی خستہ حالت میں ہیں اور اساتذہ بھی بچوں کو پڑھانے میں خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے ہیں۔انہوں نے انتظامیہ پر زور دیا کہ اسکولوں کی عمارتوں کی مرمت کر کے بچوں کو دلچسپی کے ساتھ پڑھایا جائے اور بچوں کو تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرایا جائے۔
اس سلسلے میں محکمہ تعلیم کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ مذکورہ علاقے کے لوگ واقعی تعلیم کی اہمیت سے نابلد ہیں۔ لیکن ان لوگوں کو اس کی اہمیت کے بارے میں بتانے کیلئے محکمہ تعلیم کی کوششیں جاری ہیں اور محکمہ کے عہدیداران اس سلسلے میں پوری کوشش کر رہے ہیں کہ علاقے کے سرکاری اسکولوں میں بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ بچوں کو تعلیم میں دلچسپی پیدا کرنے کیلئے اساتذہ کو خصوصی ہدایات دی جا رہی ہیں۔ ایک اور سماجی کارکن محمد اظہر الدین کے مطابق ناخواندگی کے یہ بادل خطہ چناب کے اکثر دیہی علاقوں میں ابھی تک منڈلا رہے ہیں، اور یہ کئی علاقوں میں بسنے والے نوجوانوں کا مستقبل برباد کر رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بہتر تعلیمی نظام اور بچوں کی دلچسپی کے مواقع پیدا کر کے طلباء کو اچھی تعلیم حاصل کرنے کیلئے راغب کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں سرکاری عہدیداران کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے علمبرداروں سے بھی آگے آنے کی اپیل کی۔ایک ناخواندہ نوجوان کے مطابق آج کے دور میں ناخواندگی سماج کیلئے لعنت ہے۔ایک ان پڑھ اور ناخواندہ انسان کو آج کے ڈیجیٹل دور میں سب سے زیادہ مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ آج بینک سے لیکر منریگا تک سب کچھ ڈیجیٹل ہو چکا ہے لیکن ان پڑھ ہونے کی وجہ سے وہ ڈیجیٹائزیش کے ابجد سے بھی ناواقف ہیں۔جس سے انہیں اکثر و بیشتر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کے مطابق ڈیجیٹل دنیا کو سمجھنا تو درکنار وہ بینک میں رقم نکالنے اور جمع کرانے والے فارم بھی خود سے نہیں بھر سکتے ہیں،جس کی وجہ سے انہیں ہمیشہ قدم قدم پر مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
ضلع کشتواڑ کے اس دور دراز گاؤں کے لوگوں میں تعلیم کا شوق پیدا کرنا واقعی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیوں کہ بنیادی سہولیات اور دیگر حقوق کے حصول کیلئے آواز اٹھانے کیلئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہو جاتا ہے کیوں کہ ان پڑھ اور ناخواندہ لوگوں کو نا تو قانون کے بارے میں کچھ پتہ ہوتا ہے اور نہ ہی اصول و ضوابط کے متعلق۔جس کی وجہ سے لوگ ان کا غلط فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔بہرحال اکیسویں صدی کے اس ڈیجیٹل دور میں تعلیم کی کتنی اہمیت ہے،ہر ذی شعوراس سے بخوبی واقف ہے۔ایسے میں ضلع کشتواڑ کے اس دور درازعلاقہ کے بچوں کااس کے بغیر مستقبل کتنا روشن ہے، کسی کواندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا۔امید ہے کہ مرکزی حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر اس علاقع کی ترقی کے لئے بہتر قدم اٹھاتے ہوئے یہاں تعلیم کی رسائی ممکن بنانے کی کوشش کرینگے تاکہ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں کے بچوں کا بھی مستقبل روشن ہوسکے۔(چرخہ فیچرس)