چٹان ویب مانیٹرینگ
یوکرین کے دارالحکومت کیئف کے قریبی قصبے بُوچا میں ایک اجتماعی قبر منظر عام پر آئی ہے جس میں 57 افراد کو دفن کیا ہوا تھا۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اتوار کو ایک ریسکیو سروس کے سربراہ نے بتایا کہ اجتماعی قبر بُوچا میں واقع ایک چرچ کے پیچھے موجود تھی، جس میں دبی ہوئی کم از کم 10 لاشیں سامنے نظر آ رہی تھیں جنہیں مکمل طور پر دفنایا نہیں گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لاشوں کو کالے رنگ کے بیگ میں بند کیا ہوا تھا، جبکہ قتل ہونے والے دیگر افراد عام کپڑوں میں ہی ملبوس تھے۔ بُوچا میں ہونے والے ’قتل عام‘ کا الزام یوکرین نے روس پر عائد کیا ہے۔
خیال رہے کہ یوکرینی فوج کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنے کے بعد روس نے کیئف کے مضافات سے اپنی افواج کو واپس بلا لیا تھا، جس کے بعد شہریوں کے قتلِ عام کے واقعات منظر عام پر آنا شروع ہوئے ہیں۔
اے ایف پی کے رپورٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ بُوچا کی ایک گلی میں کم از کم 20 افراد کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ ایک لاش کے ہاتھ سفید کپٹرے سے پیچھے بندھے ہوئے تھے جبکہ اس کے قریب ہی یوکرینی پاسپورٹ کھلا پڑا ہوا تھا۔روس کی وزارت دفاع نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بُوچا میں شہریوں کی ہلاکت روسی افواج کے ہاتھوں نہیں ہوئی۔وزارت نے اتوار کو جاری بیان میں کہا کہ جب بُوچا روسی افواج کے قبضے میں تھا تو ایک بھی مقامی شہری تشدد کا نشانہ نہیں بنا تھا۔
بیان کے مطابق روس کی فوج نے علاقے میں 425 ٹن انسانی امداد شہریوں کو مہیا کی ہے۔وزارت دفاع نے مزید کہا کہ تمام شہریوں کے پاس موقع تھا کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے گھر بار چھوڑ کر شمال کی جانب نقل مکانی کر لیں، جبکہ شہر کے جنوبی مضافاتی علاقوں پر یوکرینی فوج کی جانب سے مسلسل فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا۔
وزارت کے مطابق تمام روسی فوجی یونٹ 30 مارچ کو بُوچا سے نکل گئے تھے۔ اس سے ایک دن پہلے روس کی فوج نے اعلان کیا تھا کہ وہ شمالی یوکرین میں جاری کارروائیوں میں خاطر خواہ کمی لا رہی ہے۔
جرمنی نے بُوچا میں شہریوں کی ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’بدترین جنگی جرم‘ قرار دیا ہے اور یورپی یونین کو روس کے خلاف تازہ پابندیاں لگانے کا کہا ہے۔برطانیہ نے بھی جنگی جرائم کی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔