چٹان ویب مانیٹرینگ
واشنگٹن: امریکا اور دیگر یورپی اقوام نے افغانستان کے پڑوسیوں اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ افغان عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے تعاون کریں۔
رپورٹ کے مطابق واشنگٹن سے جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں انہوں نے افغانستان کے طالبان حکمرانوں پر بھی زور دیا کہ وہ دیگر سیاسی اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں کے ساتھ مخلصانہ بات چیت جاری رکھیں جو ایسے جامع سیاسی نظام کی طرف لے جائے جس میں تمام افغانوں کے حقوق کا احترام کیا جائے۔دستخط کرنے والوں میں یورپی یونین، فرانس، جرمنی، اٹلی، ناروے، برطانیہ اور امریکا شامل ہیں جن کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان نے 5 اپریل کو برسلز میں ملاقات کی۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ ڈیبورا لیونز نے بھی اجلاس میں شرکت کی جس میں ورلڈ بینک اور یونیسیف کے ساتھ تکنیکی سیشنز شامل تھے۔
اجلاس میں اس بات کو اجاگر کیا گیا کہ افغانستان کے پڑوسیوں، خطے کے ممالک، دیگر مسلم اکثریتی ممالک اور تمام بین الاقوامی شراکت داروں کو افغان عوام کے مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے افغانستان میں تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔اس طرح کی گفتگو میں افغانوں کی انسانی اور معاشی صورتحال کو بہتر، ان کی بنیادی ضروریات کو پورا اور ان کے انسانی حقوق کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
یہ بیان روس کی جانب سے ایک طالبان اہلکار جمال گروال کو ماسکو میں افغانستان کے ناظم الامور کے طور پر تسلیم کرنے کے دو دن بعد سامنے آیا ہے۔امریکا میں اس اقدام کو 24 فروری کو یوکرین پر حملے کی وجہ سے بین الاقوامی برادری میں بڑھتی ہوئی تنہائی کو کم کرنے کے روسی منصوبے کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔بیان میں طالبان کی جانب سے 23 مارچ کو افغان لڑکیوں کو سیکنڈری تعلیم کے حصول کی اہلیت سے محروم رکھنے کے فیصلے کی مذمت کی گئی۔بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ افغانستان کے لیے بین الاقوامی ڈونر امداد اور دائرہ کار کا انحصار دیگر چیزوں کے علاوہ لڑکیوں کی تمام سطح پر مساوی تعلیم میں شرکت کے حق اور اہلیت پر ہوگا۔
31 مارچ کو افغان عوام کے لیے انسانی ہمدردی کے تحت رقم اکٹھانے کی کانفرنس میں 2.23 ارب یورو اکٹھے کیے گئے تھے اور ان میں سے تقریباً دو تہائی (1.42 ارب یورو) یورپی یونین کے رکن ممالک، ناروے، برطانیہ اور امریکا کی جانب سے دیے گئے تھے۔بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ طالبان اور بین الاقوامی برادری کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی جانب پیش رفت کا انحصار طالبان کے اقدامات اور عالمی برادری سے افغان عوام کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے پر ہو گا۔بیان میں میڈیا کریک ڈاؤن کے ذریعے براڈ کاسٹروں، صحافیوں اور میڈیا ورکرز پر بڑھتی ہوئی پابندیوں خصوصاً میڈیا میں کام کرنے والی خواتین پر پابندیوں، صحافیوں کی غیر منصفانہ حراست اور افغانستان کے اندر بین الاقوامی میڈیا پر پابندی سمیت آزادی اظہار رائے پر پابندیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔
شریک ممالک نے خواتین اور مذہبی گروہوں اور اقلیتوں کی بامعنی شرکت کے ساتھ افغانستان میں ایک حقیقی اور قابل اعتماد شمولیتی سیاسی عمل کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔