چٹان ویب ڈیسک
بین الاقوامی سائنسدانوں کی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان میں حالیہ عرصے میں شدید گرمی کی لہر ممکنہ طور پر موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے اور خطے کے مستقبل کی عکاس ہے۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ’ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن گروپ‘ نے تاریخی موسمیاتی اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جس سے پتا چلا کہ وقت سے قبل اور طویل گرمی کی لہریں جو بڑے جغرافیائی علاقے کو متاثر کرتی ہیں، پہلے صدی میں ایک بار ہونے والے واقعات تھے۔ لیکن گلوبل وارمنگ کی موجودہ سطح نے گرمی کی ان لہروں کے امکان کو 30 گنا بڑھا دیا ہے۔
اس تحقیق میں حصہ لینے والی ممبئی کی انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے منسلک سائنسدان ارپیتا مونڈل نے کہا کہ اگر عالمی درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے دو ڈگری سیلسیس زیادہ بڑھ جاتا ہے، تو اس طرح کی گرمی کی لہریں ایک صدی میں دو بار اور ہر پانچ سال میں ایک بار ہو سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ چیزیں اب معمول بن جائیں گی۔
دوسری جانب گزشتہ ہفتے برطانیہ کے موسمیاتی محکمے کی جانب سے شائع کی گئی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گرمی کی لہر یا ’ہیٹ ویو‘ موسمیاتی تبدیلی کا ہی نتیجہ ہے اور یہ اسی شدت کے ساتھ ہر تین سال بعد آئے گی۔
’ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن گروپ‘ کی تحقیق قدرے مختلف ہے جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ موسمیاتی تبدیلی سے گرمی کی لہر کا دورانیہ کتنا ہوگا اور کس خطے پر اثرات ہوں گے۔
موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے سائنسدان فریڈرک اوٹو جو تحقیق کا حصہ رہے، کا کہنا تھا کہ ’اصل نتائج ہماری تحقیق اور برطانوی محکمہ موسمیات کی رپورٹ کے نتائج کے درمیان کہیں ہیں کہ گرمی کی اس لہر میں موسمیاتی تبدیلی کا کتنا کردار ہے۔‘
حالیہ گرمی کی لہر نے پاکستان اور انڈیا میں شہریوں کو بری طرح متاثر کیا۔انڈیا میں گزشتہ 120 برس میں مارچ کا مہینہ گرم ترین رہا جبکہ اپریل میں پاکستان اور انڈیا کے کئی حصوں میں گرمی کی شدت نے ریکارڈ قائم کیے۔
موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہیٹ ویو سے پاکستان کے شمال میں گلیشیئر پھٹ گیا جس سے دریا کے کنارے بعض علاقے متاثر ہوئے جبکہ انڈیا میں فصل متاثر ہوئی اور حکومت نے گندم کی برآمد پر پابندی عائد کی۔