
نو عمری میں ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کا شکار ہونا معاشرے کے لئے خطرے کی گھنٹی کی طرح ہے۔خوش قسمتی سے اس بیماری کا ہمارے ملک کے سرکاری اسپتالوں میں مفت اور مؤثر علاج میسرہے۔ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان منفی خیالات پر مبنی اندھے کنواں میں گرتا چلا جاتا ہے۔اس خطرناک بیماری کو ہمارے معاشرے میں اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔یہ ذہنی اور جسمانی بیماریوں کو بڑھانے کاایک خاص موجب بھی ہوتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ معاشرے میں اکثر لوگ اس بات کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اکثر وبیشتر ڈپریشن کے شکار افراد کو پاگل کہہ کر معاشرے سے جدا کر دیا جاتا ہے۔حالانکہ ڈپریشن کے مریضوں کو اخلاقی سہارے کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو صرف اور صرف اس کے قریبی لوگ ہی بن سکتے ہیں۔اگر ڈپریشن کے مریض کو خاندان اور دوستوں کا تعاون میسر نہ ہو تومریض کا صحت یاب ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ یونین ٹریٹری جموں کے ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے گاؤں چھپرہ وارڈ نمبر 2 کی 18سالہ باشندہ روبینہ اختر اسی ذہنی بیماری کی شکار ہے۔ روبینہ بچپن سے سولہ سال کی عمر تک ذہنی دباؤ میں نہیں تھی۔ اچانک سال 2021 میں وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئی۔
روبینہ کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ اس کے والد محنت مزدوری کرکے کسی طرح اپنے چار بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ ان کی بیٹی روبینہ کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ لیکن گھر کی معاشی حالت ٹھیک نہیں ہونے کی وجہ سے کبھی ا سکول نہیں جاسکی۔ جب دوسرے بچوں کو اسکول جاتے دیکھاتو اس کے اندر بھی حصول تعلیم کی ایک تمنا جاگ اٹھی کہ کاش! میرے گھر والوں کے پاس بھی کچھ ذریعہ ہوتا تو مجھے بھی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا۔ اسی سوچ نے اِسے ذہنی دباؤ کا شکار بنا دیا۔یہ ہمیشہ یہی سوچتی رہتی کہ کاش ہمارے گھر کا ماحول بھی اچھا ہو جائے ہم بھی باقی لوگوں کی طرح اچھی زندگی گزاریں۔ ڈپریشن کی وجہ سے وہ کئی طرح کی بیماریوں کی بھی شکار ہوچکی ہے۔روبینہ اختر نے بتایا کہ”مجھے اب معدے میں بھی بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے میرے جسم پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ کبھی کبھار خود کشی کرنے کی بھی کوشش کرتی ہوں“۔ اس کے گھر والے اس کی حالت سے بہت پریشان ہیں۔ ڈپریشن کی وجہ سے اس نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ہے۔ اس کی والدہ اس کو چمچ سے کھلاتی ہیں۔ روتی ہوئی روبینہ نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ خدارا میری مدد کی جائے تا کہ میں اس عذاب سے نکل سکوں۔ میں بہت تکلیف میں ہوں اب مجھ سے یہ تکلیف اور برداشت نہیں ہوتی۔
روبینہ کی والدہ 45 سالہ گلزارہ بی نے بتایا کہ میری بیٹی بچپن سے ذہنی دباؤ کی شکار نہیں تھی،بلکہ ایک سال سے یہ ڈپریشن کی شکار ہوگئی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ہماری معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ یہ گھر کی خراب حالت کو دیکھ کر اس مہلک بیماری کاشکار ہوگئی ہے۔ یہ اپنے گاؤں کی دوسری لڑکیوں کو اسکول جاتے دیکھتی، نئے اور اچھے کپڑے پہنے ہوئے دیکھتی، کسی ٹریننگ سینٹر میں جاتے دیکھتی تو یہ سوچنے لگ جاتی ہے کہ کاش ہمارے پاس بھی کوئی ذریعہ ہوتا، میں بھی اسکول جاتی، میں بھی اپنا شوق پورا کرتی وغیرہ۔آنسو بھری آنکھوں سے روبینہ کی ماں نے بتایا کہ ہمیں آج تک اتنے پیسے نہیں بنے کہ ہم اس کو نزدیکی ہسپتال پونچھ یا منڈی تک چیک اپ کروانے کے لیے لے جاتے، ہماری مدد آج تک کسی نے نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ اس کی ذہنی مسائل کی وجہ سے پورے خاندان میں ایک سناٹا سا چھایا رہتا ہے۔معلوم نہیں کب اور کس وقت کیا ہو جائے؟ میری بیٹی کئی مرتبہ خود کو نقصان پہنچانے اور خودکشی کرنے کی بھی کوشش کرچکی ہے۔
مقامی باشندے 50 سالہ محمد رفیق نے بتایاکہ ان کے گاؤں میں رہنے والی روبینہ ایک سال سے کافی ڈپریشن میں جا چکی ہے۔ پہلے وہ اچھی طرح سے بات چیت کرتی تھی۔ اب یہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے پریشان ہو جاتی ہے۔ اس چھوٹی عمرمیں یہ ذہنی دباؤ کی شکار صرف اس وجہ سے ہوئی کیونکہ ان کے گھر کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ کئی کئی دنوں تک یہ اپنے گھر سے باہر بھی نہیں نکلتی کیونکہ اس کے اندر بھی باقی لڑکیوں کی طرح تڑپ ہے کہ میں پڑھوں لکھوں۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر کچھ لوگ اس پر ہنسی مذاق بھی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے انسان کو پاگل قرار دیتے ہیں۔ آج کل نو جوان نسل میں کوئی خودکشی کر رہا ہے، کوئی دریا میں چھلانگ لگا رہا ہے، کوئی پوائزن پی کر ابدی نیند سوجاتا ہے، کوئی نشہ کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر احمد دین نے ذہنی دباؤ کے بارے میں بتایا کہ آپ کہ روزمرہ کے معمولات متاثر ہو رہے، تو اس کی تشخیص کے لیے آپ کو پروفیشنل کی مدد لینی چاہیے۔ان کا کہنا تھا وہ پروفیشنل آپ کا جنرل فزیشن، نفسیاتی امراض کا ماہر یا تھرا پیسٹ بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا ذہنی دباؤ ایک میڈیکل کنڈیشن ہے۔ اس کا مؤثر اور مفت علاج سرکاری اسپتالوں میں موجود ہے۔ اگر کسی کی یہ کیفیت ہو جائے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مریض جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ ایسی کیفیت میں ہیں تو آپ کو جلد از جلد نزدیکی ہسپتال میں چیک اپ کروانے کے لئے ضرور جانا چاہیے۔علاوہ ازیں ڈاکٹر احمد دین نے یہ بھی بتایا کے ذہنی دباؤ ایک مخصوص کیفیت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، اداس اور ناکام تصور کرتا رہتا ہے۔ واقعات کہ منفی رخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور اس کیفیت میں اگر مریض کو فیملی یا دوست و احباب کی طرف سے مناسب مدد نہ ملے اور بروقت علاج پر توجہ نہ دی جائے تو مریض کی ذہنی حالت بگڑنے لگتی ہے۔ جو اسکی سوشل اور پروفیشنل زندگی کیلئے مہلک ثابت ہوتی ہے۔
زندگی میں ترقی کا سفر رُک کر جمود کا باعث بنتا ہے اور یہ جمود رفتہ رفتہ انسان کی صلاحیتوں کے ساتھ اس کی خوشیوں، خوابوں، رشتوں، اور محبتوں کو کسی دیمک کی طرح چاٹ کر مریض کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ آج کل نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں ذہنی دباؤ بڑی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ اس کی زیادہ تر وجہ یہی ہوتی ہے کہ گھروں میں معاشی حالات ٹھیک نہیں ہوتے اور دوسرا یہ کہ ہر وقت کسی وجہ سے فکر مند رہنا، مسلسل دباؤ کا احساس، تناؤ سے نمٹنے کے لیے منشیات کا استعمال، بہت زیادہ کھانا، گھر والوں اور دوستوں سے قطع نظر رکھنا، یہ علامات آج کل نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں پائی جاتی ہیں۔ اگر آپ کا تناؤ اس حد تک پہنچ گیا ہے اور آپ خود کو یا کسی اور کو نقصان پہنچانے کا سوچنے لگیں تو فوری طور پر طبی امداد کے لیے کسی ڈاکٹر یا سرکاری اسپتال کا رُخ کریں وہاں علاج کے ساتھ دوائیں اور مفید مشورے دے کر آپ کو اس خطرناک مرض سے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا اوارڈ 2022کے تحت لکھا گیا ہے۔ (چرخہ فیچرس)
