
عورت قدرت کی خوبصورت ترین تخلیقات میں سے ایک ہے۔ پوری دنیا اس نصف آبادی پر مشتمل ہے۔ 8 مارچ دنیا کی اس نصف آبادی کا دن ہے۔ خواتین کا عالمی دن ہر سال اس دن منایا جاتا ہے جس کا مقصدانہیں ان کے حقوق سے آگاہ کرنا اور انہیں بااختیار بنانا ہے۔ تمام خواتین اور لڑکیوں کو جدت اور ٹیکنالوجی سے جوڑنے کے لیے، اقوام متحدہ نے 2023 کا تھیم”ڈیجیٹل: صنفی مساوات کے لیے اختراع اور ٹیکنالوجی“کا انتخاب کیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے چھوٹے شہروں کی لڑکیاں بھی اسے حقیقت بنا رہی ہیں۔ ایسا ہی ایک شہر بہار کا چھپرا ہے۔گھاگھرا اور گنگا ندی کے سنگم پر واقع اس چھوٹے سے شہر میں بھی خواتین کاروباریوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس میں انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی نے ان کی کافی مدد کی ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے نہ صرف خواتین کے کاروباری ہونے کے امکانات کو بڑھایا ہے بلکہ اسمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ کی مدد سے انہیں اپنی انگلیوں پر بھی لایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب شیفا فیض، انکیتا اور ندھی پربھاکر جیسی خواتین گھر میں رہ کر کامیابی سے کاروبار اور تجارت کر رہی ہیں۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آغاز کتنا بڑا یا چھوٹا ہے، اہم بات ’شروع کرنے کی ہمت‘ ہے۔ چھپرا کی نوجوان کاروباری شفا فیض نے صرف 18 سال کی عمر میں سوشل میڈیا کی مدد سے آن لائن گفٹ بزنس شروع کیا۔ فروری 2018 میں، اس نے ”شیفو کریشن“ کے نام سے ایک پلیٹ فارم بنایا اور ہاتھ سے بنے اور پرنٹ شدہ تحائف کی آن لائن ڈیلیوری شروع کی۔ پدرانہ معاشرے میں کاروبار شروع کرنا کتنا مشکل ہے؟ کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ اگر لڑکا ہوتی تو صورتحال مختلف ہوتی؟ اس سوال کے جواب میں شفا کا کہنا ہے کہ ”خدا کا شکر ہے کہ میں لڑکا نہیں ہوں، میں زیادہ درست کرنے کے قابل ہوں، لوگ مجھ پراعتماد کرتے ہیں“۔ شیفا کہتی ہیں،”مجھے بچپن سے ہی دستکاری کا شوق تھا، مختلف چیزیں بناتی تھی۔ اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ شروع میں ہر چیز اچھی ہو، پھر بھی میں اسے بناتی تھی۔ اسے انسٹاگرام پر پوسٹ کرتی اور یوٹیوب پر ڈال دیا کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ لوگ اسے پسند کرنے لگے اور میں بھی اسے بناتے ہوئے صحیح اور غلط کو سمجھنے لگی۔ 2018 میں میں نے اسے کاروبار میں تبدیل کرنے کا سوچا، گھر والوں کو یہ بات قدرے عجیب لگی لیکن فروری میں انسٹاگرام پر’شیفو کریشن‘ کے نام سے میرا اکاؤنٹ بنا۔ اسٹارٹ اپ کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، اس کے مقابلے میں میں نے زیادہ سرمایہ کاری نہیں کی۔ میں نے دستکاری کی اشیاء کے لیے جو تھوڑی سی رقم خرچ کی وہ صرف 50 سے 100 روپے کے درمیان تھی۔ اپنے کام کو اکاؤنٹ پر پوسٹ کرتی رہتی تھی۔ اب میں بے صبری سے اپنے پہلے آڈر کا انتظار کر رہی تھی“۔شیفا کو اپنے پہلے آرڈر کے لیے چار مہینے انتظار کرنا پڑا۔ آخرکار اسے جون میں اپنا پہلا آرڈر ملا۔ شفا کا کہنا ہے کہ”پہلا آرڈر پا کر میں بہت خوش ہوئی، یہ آرڈر میری دوست نے اپنی بہن کے لیے دیا تھا۔ میں نے ایک خوبصورت کارڈ بنایا اور خود اسے پہنچانے گئی، اس نے مجھے اس کے لیے 100 روپے دیے۔ یہ میری پہلی آمدنی تھی۔ آہستہ آہستہ مجھے آرڈر ملنے لگے۔ اب مجھے ایک مہینے میں 20 سے 25 آرڈر ملتے ہیں۔ اب چھپرا کے باہر بھی یوپی، دہلی، پنجاب، تامل ناڈو، مہاراشٹر اور آسام سے آرڈر آتے ہیں۔“ شیفہ کہتی ہیں کہ گھر پر ہاتھ سے بنے تمام آرڈرز وہ خود کرتی ہوں۔ جبکہ وہ کمپنی کی طرف سے بنائے گئے سامان کا آرڈر بذریعہ کورئیربھیجتی ہیں۔ اس کا خواب ہے کہ وہ اپنی فیکٹری قائم کرے اور شیفو کریشن کو ایک برانڈ بنائے۔ شیفا کے والدین شروع میں اس اسٹارٹ اپ کے خلاف تھے۔ لیکن اب وہ خوش ہے کہ شیفا ان کے گھر کی پہلی لڑکی ہے جو اتنی چھوٹی عمر سے اپنا کاروبار کر کے خود کفیل ہو گئی ہے۔ شیفو کریشنز کی ایک کسٹمر کومل کہتی ہیں،”پہلی بار مجھے آرڈر دینے میں ڈر تھا کہ کہیں یہ جعلی نہ ہو۔ لیکن یہ بالکل ٹھیک نکلا“۔ وہ کہتی ہیں کہ”شیفا گاہکوں کی پسند کے مطابق تحائف تیار کرتی ہیں۔“
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عورتیں زمانہ قدیم سے کاروبار کے میدان میں صنفی عدم مساوات کا شکار رہی ہیں۔ لیکن اپنی ہمت سے اس نے برسوں پرانے مردوں کی اس اجارہ داری کو ختم کر دیا ہے۔ اس کی مثالیں دو بہنیں انکیتا پربھاکر اور ندھی پربھاکر ہیں۔ جس نے اپنے برسوں پرانے کاروباری خواب کو پورا کیا۔ انکیتا کہتی ہیں،”ہم ایک تاجر گھرانے سے ہیں۔ ہماری کپڑوں کی ایک بڑی دکان ہے۔ چھپرا کے آس پاس کے تمام گاؤں کو ہول سیل سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر ہم بھی اس کاروبار میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے تھے۔ لیکن چھپرا اتنی ترقی یافتہ جگح نہیں ہے۔ جس میں خواتین کو حوصلہ دیا جائے۔گھر میں ہر چیز کی آزادی تھی لیکن عورتیں کاروبار کریں یہ پسند نہیں تھا۔گھر کی سخت حکمرانی کی وجہ سے خودکا کاروبار کا خواب ادھورا رہ گیا۔پھر شادی اور بچوں کی پروریش میں الجھ کر رہ گئی۔جب اس سے آزادہوئی تو واپس سوچنا شروع کیا۔ہم نے والد اور چچا کے کولکتہ اور سورت کے دکانداروں سے رابطہ کیا، وہ ہول سیل سپلائی کرتے تھے، انہوں نے ہمارے ساتھ ریٹیلرز کے نمبر شیئر کیے، آخر کار ہم دونوں نے 2016 میں واٹس ایپ گروپ بنا کر کپڑے کا آن لائن کاروبار شروع کیا۔ آج ہمارے 3800 صارفین ہیں جن میں خوردہ فروش اور تھوک فروش شامل ہیں“۔ندھی کہتی ہیں،”ڈیجیٹل مارکیٹ نے ہمارے کاروبار میں بہت مدد کی ہے۔ حالانکہ یہ بہت مشکل کام ہے۔ لیکن اگر آپ کے پاس علم ہے، تو صرف آپ ہی یہ کر سکتی ہیں۔“ وہ کہتی ہیں کہ”میں بی ٹیک ہوں، میں نے خود پڑھ کر اپنا پلیٹ فارم بڑھایا، اپنی پوسٹ کو بڑھایا۔“
تاہم، کاروبار چاہے آن لائن ہو یا آف لائن، خواتین کو اس شعبے میں کئی سطحوں پر چیلنجز کا سامنا ہے۔ لیکن اپنی سمجھ اور ہمت سے وہ ان تمام چیلنجز پر آسانی سے کامیابی حاصل کر لیتی ہیں۔ آن لائن پلیٹ فارم ان کی کامیابی میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ درحقیقت سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی نے کاروبار کی نوعیت ہی بدل دی ہے۔ یہ چھوٹے شہر کی خواتین کے لیے ایک بہتر آپشن کے طور پر ابھرا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل قریب میں مزید خواتین اس سے فائدہ اٹھا سکیں گی۔ یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2022 کے تحت لکھا گیا ہے۔ (چرخہ فیچر)
