• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
اتوار, مئی ۱۱, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم مضامین

خود مختار عورت اور ہمارا معاشرہ

Online Editor by Online Editor
2023-05-25
in مضامین
A A
خود مختار عورت اور ہمارا معاشرہ
FacebookTwitterWhatsappEmail
تحریر:رخسار کاظمی

خودمختار ہونا ایک عورت کو پر دینے کا کام کرتا ہے۔ جس کی بدولت وہ اڑان بھر سکتی ہے تا کہ اسے کسی اور پر منحصر نہ ہونا پڑے۔ خواتین کو خود مختار ہونا چاہئے، ایک خود مختار عورت اپنے آپ کو ہر طرح کے جذباتی، ذہنی، اور معاشی امور سے نمٹنے کے لئے تیار ہوتی ہے۔ یہ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندگی کی ہر صورت میں آگے بڑھ سکیں اور خود اپنے مقاصد تک آپ پہنچیں۔ آج کل کی دنیا میں، خود مختار عورتوں کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ وہ خودبخشی، اعتماد، اور خود بھرتی کی حیثیت سے زندگی گزارتی ہیں۔ ایک خود مختار عورت خود کو اپنے ہاتھ میں زندگی تکمیل شدہ محسوس کرتی ہے۔ وہ خود بھرتی، خود کار، اور خود حوصلہ مند ہوتی ہے۔ خود مختاری، عورتوں کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ ان کی زندگی کے کثیر اہمیت کے مسائل کے حل کرنے کا راستہ ہے۔ یہ وہ مستحکمی پیدا کرتی ہے جو ان کو آگے بڑھنے اور اپنے مقصد تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔ ایک خود مختار عورت اپنے خوابوں کو خود انجام دینے پر یقین رکھتی ہے دوسروں کے اعتماد پر نہیں۔ اس معاشرے میں لوگ مردوں کو خودمختار ہونے کی حمایت کرتے ہیں، لیکن جب بات عورتوں کی آتی ہے تو معاشرہ انہیں پیچھے کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب لڑکی پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنے باپ پر مختار ہوتی ہے، اور جب وہ بیوی بنتی ہے تو وہ اپنے شوہر پر مختار ہوتی ہے۔ایسے میں خوداس کی کوئی شناخت نہیں رہ جاتی ہے۔ اگر اس کا شوہر اسے طلاق دے گا تو وہ اپنی زندگی کو کیسے گزار سکتی ہے،معاشرے کو اس کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔کہا جاتا ہے کہ ایک عورت کو ہمیشہ کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات ہر وقت کی حقیقت نہیں۔ اگر خواتین کے راہ میں کوئی کانٹا بننے کی کوشش نہ کرے تو وہ بڑے سے بڑے کام انجام دے سکتی ہیں۔ سروجنی نائیڈو، اندرا گاندھی، سشما سوراج، ثانیہ مرزا، اروندھتی رائے، کرن بیدی، سدھا مرتی، برکھا دت، میتھالی راج، کلپنا چاولا، اور گنجن سکسینہ جیسی ہزاروں عورتوں کے نام لئے جا سکتے ہیں جو اپنے کام کی وجہ سے اپنے خاندان اور اپنے ملک کی عزت و وقار اور فخر کا باعث بنیں۔
دورِ حاضر اور خاص کر بچھڑے ہوئے علاقاجات کی کہانی کچھ مختلف ہے، یہاں عورتوں کو خواب دیکھنے سے پہلے ہی ان کے خواب کچل دئیے جاتے ہیں، انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے کہ شادی بیاہ ہی ان کی زندگی کا کل اثاثہ ہے۔ اس ضمن میں میں نے جب اپنے محلہ میں نظر دورائی تو مجھے قریب 47 سال کی زینت بیگم دکھیں جو چار بچوں کی ماں ہیں اور ان کے شوہر کی چند سال پہلے وفات ہوگئی تھی، میں نے پوچھا کہ کیا وہ پڑھی لکھی ہیں؟ زینت بیگم نے بتایا کہ وہ پڑھی لکھی نہیں ہیں اور وہ اپنے شوہر کی کمائی پر منحصر تھی، لہذا اُن کے شوہر کی وفات کے بعد اُنھیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اُن کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالیں اور اُنہیں تعلیم حاصل کروا سکیں۔ جس کی وجہ سے اُن کے بچے جن کو اس عمر میں پڑھائی کرنی چاہئیے، وہ محنت مزدوری کر کے اپنا گھر چلا رہے ہیں۔ زینت بیگم نے کہا کہ اگر میں پڑھی لکھی ہوتی اور اپنے دم پر پیسے کما سکتی تو شاید میرے بچوں کا مستقبل اس طرح خراب نہ ہوتا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ جو بھی ہو، ہر عورت کو پڑھائی مکمل کروانی چاہئیے تاکہ اُن کو مستقبل میں میری طرح مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی حوالے سے جب میں نے شگفتہ ناز سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تعلیم ہر عورت کے لئے بہت ضروری ہے۔ میرے والدین نے میری تعلیم مکمل کروائی تھی جس کی بدولت آج میں اپنا خرچہ خود اٹھا سکتی ہوں اور مجھے کسی اور پر مختار نہیں ہونا پڑ رہا۔ میں پیشے سے ایک استانی ہوں اور بچوں کو پڑھاتی ہوں اور مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں اس قابل ہوں کہ میں خود کا خرچہ خود نکال سکتی ہوں اور میں اپنی بیٹیوں کو بھی خود مختار بنانا چاہتی ہوں۔ میری سب والدین سے یہ گزارش ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم حاصل کر وائیں اور تب تک شادی نہ کروائیں جب تک وہ اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو جائیں۔
مشرق تا مغرب، شمال تا جنوب ہر صدی اور ہر عہد میں عورت نے اپنے حقوق کی پاسداری کے لیے آواز بلند کی۔ مگر افسوس کے بہت بار اس کی آواز کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔ دنیا میں جتنے مذاہب کے ماننے والے لوگ ہیں، ہر مذہب میں عورت کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن ہو یا گیتا ہر مہذب کتاب اپنے اندر عورتوں کے حقوق کو سمیٹے ہوئے وجود میں آئی۔ زمانے کی تنگدستی و تنگ نظری جب جب عورت کی راہ میں رکاوٹ بننے تب تب عورت نے احتجاج کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر بار اسے دنیا کی دقیانوسی سوچ نے دھتکار دیا۔ یہ عورت ہی ہے جو کبھی ماں بن کر کبھی بیٹی اور بہن اور کبھی بیوی بن کر اپنے گھر کی تربیت کرتی ہے مگر جواب میں اسے فقط ناقص العقل اور کبھی پاؤں کی جوتی جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ عورت وہ ہے کہ جو زمانے کے خزاں رسیدہ گلستان میں ایک سدا بہار پھول بن کر محبت کی خوشبو مہکاتی ہے۔ عورت وہ ہے کہ جس کے دم سے یہ دنیا اپنی زندگی کا چراغ جلانے میں کامیاب ہوئی کیونکہ عورت کے دم سے ہی مرد کا وجود بھی ہے۔ آج ضرورت ہے تو خواتین کے حقوق کو بحال کرنے کی ہے، ضرورت ہے تو ایک عورت کو معیاری تعلیم دلوانے کی ہے تا کہ وقت آنے پر وہ مرد کے شانہ بہ شانہ چل سکے اور اپنی زندگی عزت اور وقار کے ساتھ جئے۔ عورتوں کو آزاد ہونا چاہئے، کیونکہ یہ انسانی حق ہے۔ آزادی سے مراد مادی، جسمانی، ذہنی، روحانی اور اجتماعی رویوں کی آزادی ہے۔ عورتوں کو اپنے فردی، تجارتی اور معاشرتی ترقی کے لئے خود کفایتی، قابلِ اعتماد بننا چاہئے۔ انہیں بہترین تعلیم، مہارت اور تربیت فراہم کرنا چاہئے تاکہ وہ خود پرست اور بے بغاوت بن کر معاشرے کی خدمت کر سکیں۔ عورتوں کے حقوق کا احترام کرنا ہماری معاشرتی بنیادوں کے لئے بہت اہم ہے اور یہ ایک عدالتی، مساوی اور بہتر معاشرتی نظام کی بنیاد ہے۔ بقول علامہ اقبال
”وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں“
(چرخہ فیچرس)

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

دولت سے خوشیاں خریدی جاسکتی ہیں؟

Next Post

سول سروسز کا بھیانک بھوت

Online Editor

Online Editor

Related Posts

سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
مسلم اکثریتی اندروال میں پیارے لال شرما کی کامیابی ایک مثال

مسلم اکثریتی اندروال میں پیارے لال شرما کی کامیابی ایک مثال

2024-10-22
تعلیمی اداروں کی من مانیاں عوام کے لئے درد سر

کیریئر کے انتخاب میں طلبہ کی رہنمائی کی ضرورت

2024-10-05
مہاتما گاندھی کا یوم پیدائش: اقدار جن کی دنیا کو آج ضرورت ہے

مہاتما گاندھی کا یوم پیدائش: اقدار جن کی دنیا کو آج ضرورت ہے

2024-10-03
کینسرخلیات کو روشن کرکے دکھانے والی نئی ایم آر آئی ٹیکنالوجی

کینسر سے متاثر دیہی خواتین

2024-09-18
ذہنی اور جسمانی ترقی میں کھیل کے میدان کی اہمیت

ذہنی اور جسمانی ترقی میں کھیل کے میدان کی اہمیت

2024-09-03
لوک سبھا انتخابات :پانچویں مرحلے میں بارہمولہ پارلیمانی نشست کیلئے ہونی والی ووٹنگ کیلئے انتظامات کو حمتی شکل

جموں کشمیر کے اسمبلی انتخابات

2024-08-27
 مرکزی بجٹ میں جموں و کشمیر کیلئے  42,277 کروڑ روپے سے زیادہ کی  رقم مختص

بجٹ کی منظوری:مالیاتی اور بینکاری اِصلاحات کی راہ ہموار

2024-08-10
Next Post
سول سروسز کا بھیانک بھوت

سول سروسز کا بھیانک بھوت

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan