درخشاں ضیا
بھارت جیسے ترقی پذیر ملک میں، جب ہم اچھے سے عظیم بننے کی طرف سماجی و اقتصادی تبدیلی سے متعلق بات کرتے ہیں، تو تبدیلی کے لئے اولین نظریہ اوپر سے آنا چاہیے۔ پیغام بالکل واضح ہونا چاہئے، جو نہ صرف اس بات کی وضاحت کرتا ہو کہ کیا کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اس بات کی وضاحت بھی لازمی ہے کہ تبدیلی کی ضرورت کیوں ہے۔ تبدیلی کے اس سفر میںیہ ضروری ہے کہ تجربات کا رجحان پیدا کیا جائے اور تبدیلی کے اولین مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے آلات سے فائدہ اٹھایا جائے۔
یہ وکست بھارت مہم کے انقلابی جوہر کا احاطہ کرتا ہے۔ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ اس مہم کے ذریعے لوگوں کی شمولیت سے بڑے پیمانے پر تبدیلی کا عمل ملک کے ہر شہری کو بااختیار بنا رہا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ہر سماجی و اقتصادی شعبے میں شروع ہونے والا یہ تبدیلیکا سفر ’میں‘ کے بجائے ’ہم‘ کے نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے، جو تعاون کو فروغ دیتا ہے اور دو طرفہ کمیونکیشن پیدا کرتا ہے۔ اس پوری مہم کے دوران، فلاحی اسکیموں کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے علاوہ، ڈیجیٹلفرسٹ ذہنیت کی فطری تلاش بھی کی جاتی ہے۔ یہ مربوط تبدیلی کی طرف ایک لازمی قدم کے طور پر کام کرتا ہے، جو ایک ترقییافتہ قومیت کے حصول کے نظریے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ یہاںیہ بات قابل ذکر ہے کہ اس تبدیلی کے عمل کو آسان بنانے میں صحیح ٹیکنالوجی کا استعمال انتہائی اہم ہے۔
دوسرے لفظوں میںیوں کہا جاسکتا ہے کہ بے مثال میگا بیداری مہم، وکست بھارت سنکلپ یاترا اس وقت جوش و جذبے کے ساتھ جاری ہے۔ اس کا مقصد ملک بھر میں سماج کے مختلف طبقوں کے لئے تیار کردہ سرکاری فلاحی اسکیموں کے بارے میں معلومات پھیلانا ہے، جس سے بھارت کو اس کی آزادی کے 100 ویں سال یعنی 2047 تک ’وکست‘ (ترقییافتہ) بنانے کے لئے ایک تبدیلی کے سفر کا آغاز ہوگا۔ تبدیلی کا سفر صحیح سمت میں گامزن ہے، جس میں وکست بھارت مہم کے ذریعے بالخصوص فلاحی اسکیموں کی دستیابی اور رسائی سے متعلق بھرپور جانکاری فراہم کرکے ہر شہری کو ایک نالج بینک میں تبدیل کرنے کے لئے منظم کوششیں کی گئی ہیں۔
دراصل، علم ہر شہری کو ان کے مقام سے قطع نظر، سماجی و اقتصادی ترقی کی طرف راغب کرنے اور ملک کو اچھے سے عظیم بنانے کی طرف لے جانے کے سفر کو جلا بخشنے کی طاقت رکھتا ہے۔ انڈیا ٹوڈے کے ساتھ ایک حالیہ خصوصی انٹرویو میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے زور دے کر کہا، ’ہم گیان پر دھیان دیں گے، گیان کو سمان دیںگے، تو وکست بھارت بنے گے‘ (اگر ہم علم پر توجہ مرکوز کریں اور اس کا احترام کریں تو ہم ایک ترقییافتہ قوم بن جائیں گے)۔ انہوں نے وضاحت کی کہ گیان کا مطلب غریب(غریب)، یووا (نوجوان)، انداتا (کسان) اور ناری شکتی (خواتین کو بااختیار بنانا) ہے۔
مطلوبہ سماجی و اقتصادی اثرات کے حصول کے لئے سرکاری فلاحی اسکیموں کے بارے میں بیداری کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔آبادی کے مختلف طبقوں کی سماجی و اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان اسکیموں کو تیار کیے جانے کے باوجود، مستحقین کا ایک بڑا حصہ ان سکیموں سے فائدہ اٹھانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایک باخبر معاشرہ جو ان کی فلاح و بہبود کے لئے شروع کئے گئے سرکاری پروگراموں کے بارے میں اچھی طرح سے آگاہ ہے، ایک پھلتی پھولتی اور پائیدار معیشت کی بنیاد کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ آگاہی کے ذریعے حاصل کردہ علم ہی ہے جو جدت طرازی کو فروغ دیتا ہے، خاص طور سے سائنس اور ٹکنالوجی میں تحقیق اور ترقی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور حکومت کو اعلیٰ سطح کی سیکیورٹی سے بھر پور اعلیٰ معیار کی انتظامیہ فراہم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر یہ جانکاری شہریوں میں بااختیاری کا احساس پیدا کرنے کے لئے سیڑ کیپٹل کے بطور کام کرتا ہے۔
اس تناظر میں، وکست بھارت سنکلپ یاترا (وی بی ایس وائی) اس سیڑ کیپٹل کو ایک علمی معیشت میں بدلنے کے لیے ایک زرخیز زمین بن جاتی ہے۔جاری وکست بھارت مہم عالمی توجہ حاصل کرنے کے لئے تیار ہے، کیونکہیہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ان کیصلاحیتوں کو تلاش کرنے اور 2047 تک 30 ٹریلین امریکی ڈالر کی معیشت کے ساتھ ایک وکست بھارت- ترقییافتہ ملک کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر شرکت کی دعوت دیتی ہے۔قابل ذکر ہے کہ بھارت اس وقت دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے اور اس نے 2027 تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
یہاں میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں تبدیلی کے تناظر میں کچھ حقائق پیش کرتی ہوں کیونکہ وکست بھارت پہل نے ملک کو 2047 میں ایک ترقییافتہ ملک کے طور پر ابھر کر سامنے آنے کے لئے بدامنی سے پاک سفر کے لئے اڑان بھرنے کے لئے ایک مقام پر پہنچا دیا ہے۔ گزشتہ ایک دہائیکے دوران ساگر شکشا جیسی پالیسیوں اور اسکیموں،یونیورسٹیوں، آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم، میڈیکل اور نرسنگ کالجوں کی ترقی اور پردھان منتری کوشل وکاس یوجنا جیسے ہنرمندی پروگراموں کے ذریعے سماجی و اقتصادی بنیادی ڈھانچے میں خاطر خواہ توسیع ہوئی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آج بھارت کے اعلیٰ تعلیمی نظام میں 1113 یونیورسٹیاں/ یونیورسٹی سطح کے ادارے، 43796 کالج اور 11296 سٹینڈ ایلون ادارے شامل ہیں، جن میں 4.33 کروڑ طالب علم زیر تعلیم و تربیت ہیں۔ اعلیٰ تعلیم میں مجموعی اندراج کا تناسب (جی ای آر) مسلسل بڑھ کر 28.4 ہو گیا ہے۔
یہاںیہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈیجیٹل انڈیا اور اسٹارٹ اپ انڈیا جیسی پالیسیاں نوجوانوں کو روزگار پیدا کرنے والے بننے کے قابل بنا رہی ہیں۔ بھارت میں 100 سے زیادہیونیکارن ہیں جن کی کل مالیت 340 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے اور یہ دنیا کے تیسرے سب سے بڑے اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام کے طور پر ابھرا ہے۔
تبدیلی کے اس سفر میںیہ ضروری ہے کہ وکست بھارت مہم کو مشن موڈ کے تحت چلایا جائے۔ نوجوانوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہیہ پورا عمل ان کا مستقبل بنانے جا رہا ہے۔ انہیں اپنے اختراعی خیالات کو متحرک کرنے اور ملک کو اچھے سے عظیم ملک بنانے اور 2047 تک وکست بھارت حاصل کرنے کے وژنمیں حصہ ڈالنے کی اجازت دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔
