تحریر:جی ایم بٹ
اسلام کا جس ماحول میں ظہور ہوا انتہائی قسم کی ابتری کے باوجود تجارتی نظم وضبط پر قائم تھا ۔ مکہ کے لوگوں کی آمدنی کا مستحکم ذریع تجارت تھا ۔ کئی اشیا کو در آمد اور برآمد کرکے وہ اپنی معیشت کو مستحکم کئے ہوئے تھے ۔ اس حوالے سے ایک اہم بات ہے کہ اخلاقی زوال کے باوجود وہاں جھوٹ اور دھوکہ دہی سے کام نہیں لیا جاتا تھا ۔ عام لوگ مل جل کر تجارت کرتے تھے ۔ تجارت کے جو متعین اصول تھے ان پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا ۔ کسی کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔ بلکہ جن لوگوں کا مال لے کر کوئی گروہ دوسرے شہروں کو جاتا واپسی پر حصہ داروں کو منافع کا برابر حصہ دیا جاتا تھا ۔ اس وجہ سے تجارت دن بہ دن پھیلتا تھا اور اس ذریعے سے مکے کی معیشت اور وہاں کا معاشرتی نظام قائم تھا ۔ اس دوران ہمیں سیرت نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایسے تجارتی قافلوں کے ساتھ سفر کرتے اور خدیجہ کا مال لے کر اس کو فروخت کرتے ۔ تجارت کے اس لین دین میں وہ انتہائی کھرے ثابت ہوئے اور پوری دیانت داری سے حسابات خدیجہ کے حوالے کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ بعد میں حلقہ اسلام میں داخل ہونے والے کئی صحابہ کے حوالے سے بھی بتایا گیا ہے کہ اسلام سے پہلے اس قسم کی تجارت سے وابستہ تھے ۔ حضرت ابوبکر اور عثمان کے علاوہ حضرت عمر اور حضرت ابوسفیان کے بارے میں بھی پتہ چلا ہے کہ مال لے کر دوسرے شہروں کو جاتے تھے ۔ اسلام کے ظہور کے بعد مسلمانوں کے تجارتی قافلوں کے ذریعے اسلام دنیا کے دور دراز کے خطوں تک پہنچا ۔ کہا جاتا ہے کہ یورپ کے علاوہ ہندوستان ، سری لنکا اور مالدیپ اسلام ایسے ہی تاجروں کی وساطت سے پہنچا ۔ جہاں لوگ ان مسلمان تاجروں کی شرافت اور دیانت دیکھ کر اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوئے ۔ خلافت راشدہ کے بعد جب اسلامی فتوحات اور تبلیغی سرگرمیوں کا سلسلہ ختم ہوا تو دوسری کئی اقوام نے تجارت پر قبضہ کرکے اس کی وساطت سے دنیا کے بہت سے خطوں پر اپنا تسلط جمایا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی سے پہلے پرتگال اور دوسرے کئی ملکوں نے کئی خطوں پر اپنی حاکمیت تجارت کے راستے سے قائم کی ۔ تاہم ایسٹ انڈیا کمپنی اس حوالے سے دور جدید کی سب سے اہم تجارتی کمپنی سمجھی جاتی ہے ۔ اس تجارتی کمپنی برطانیہ کے اقتدار کو شرقو غرب قائم کرنے میں اہم رول ادا کیا ۔ بلکہ برصغیر کو برطانیہ کے زیر تسلط لانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلیدی رول ادا کیا ۔ اب چینا بھی اسی نظام کو قائم کرنے کی کوشش کررہاہے ۔ اس کی کوشش ہے کہ خلیج تک اپنے لئے راستہ تعمیر کرکے پوری دنیا میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دے کر اپنا زور آزمائے ۔ تاہم امریکہ اور اس کے حلقہ اثر میں کام کرنے والے کئی ممالک ایسی سرگرمیوں میں روڑے اٹکاکر چینا کو آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں ۔ یہ ممالک کہاں تک کامیاب ہونگے ابھی کہنا مشکل ہے ۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ مسلمانوں کو یہ لوگ تجارت کے میدان سے بے دخل کرکے انہیں بھیک کے کام پر لگانے میں کامیاب ہوئے ۔ اس وجہ سے مسلمان نہ صرف بھکاری بن گئے ہیں بلکہ اسلام کی غربت کا وہ زمانہ دیکھنے کو مل رہاہے جس بارے میں نبی ﷺ نے پہلے ہی خبردار کیا ہوا ہے ۔
مسلمانوں کے حکمران اور شرفا ہی نہیں بلکہ ان کے علما بھی اب کام اور محنت کرکے روزی روٹی کمانے کو ممنوع قرار دے چکے ہیں ۔ علما کی تعلیم و تربیت کے لئے جو چھوٹے بڑے ادارے قائم ہیں سب بھیک کے پیسوں پر چلتے ہیں ۔ یہاں سے فارغ ہونے والے نوجوان صحت مند اور کام کاج کے لئے تنومند ہونے کے باوجود کوئی کام کرنے کو تیار نہیں ۔ بلکہ مفت کی روٹیاں توڑنے کے سوا ہاتھ ہلانے کو تیار نہیں ۔ ان کی تربیت ایک ایسے ماحول میں ہوئی ہے جہاں انہیں یہی سکھایا گیا کہ تجارت اور ایسی کوئی بھی سرگرمی ان کے لئے جائز نہیں ۔ ہر وہ کام جو رسول اور ان کے حواری کرتے تھے سب دینی اداروں نے ناجائز قرار دئے ہیں ۔ تجارت ، زمینداری ، باغبانی اور حکومت سازی جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسلمانوں کے لئے اصل کام ہوتے تھے دینی مدرسوں نے ان سب کاموں کو ناجائز قرار دیا ہے ۔ ان مدرسوں میں جو تعلیمی نظام قائم ہے اس کے تحت طلبہ کو تسبیح و مناجات سکھائے جاتے ہیں ۔ باقی تمام علوم چاہئے وہ پیغمبر ، صحابہ اور فقہا کے لئے کتنا بھی معتبر کام رہے ہوں اب شریعت مدارسہ میں ممنوع قرار پائے ہیں ۔ ایسے تمام لوگوں کے لئے پیٹ پالنے کا واحد جائز ذریعہ بھیک ہی قرار پایا ہے ۔ انہوں نے جو شریعت تشکیل دی ہے ان میں دین پسندوں کے لئے بھیک کے علاوہ ایک لقمہ بھی جائز اور حلال نہیں ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو شریعت پائی جاتی تھی اس کے اندر بھیک کا ایک لقمہ بھی حرام سمجھا جاتا تھا ۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ اپنے آل اور عیال کے لئے صدقہ و زکوات بھی حرام قرار دیا ۔ اس کے بجائے اب جو شریعت مدرسوں کے ذریعے مرتب ہوئی ہے اس میں بھیک ۔ صدقہ اور خیرات کے بغیر تمام ایسے وسائل اور ذرایع ناجائز قرار پائے ہیں جو جدید زمانے میں رائج ہیں ۔ اس وجہ سے مسلمانوں کا ایسا دین دار طبقہ جو مدرسوں سے فارغ ہوکر آیا ہے پوری سوسائٹی کے لئے ایک وبال بن گیا ہے ۔ ایسے تمام حفاظ ، قاری اور فقہا جو بھیک سے چلنے اور پلنے والے مدرسوں کے فارغ التحصیل ہیں مسلمان بستیوں کے لئے ایک مصیبت ثابت ہورہے ہیں ۔ ایسے نوجوان جعلی رسید بک اور بھوگس مدرسے تعمیر کرکے غریبوں اور حاجتمندوں کے لئے مختص مدات پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں ۔ یتیم اور بیوہ خواتین مزدوری کرنے پر مجبور نظر آتی ہیں ۔ اس کے بجائے مدرسوں سے آئے علما بڑے آرام سے صدقہ و زکوات کو ہڑپ کررہے ہیں ۔ ان کے پیٹ حرام غذائوں سے پھول گئے ہیں ۔ صدقہ اور زکوات کھانے سے ان کی توند نکل آئی ہے ۔ خیرات کے پیسوں پر پل کر ان کی گردن ہاتھی اور سونڈ کی طرح موٹی ہوگئی ہے ۔ اس کے بجائے یتیم اور مساکین لاغر اور کمزور نظر آتے ہیں ۔ افسوس اور لعنت ہے ان لوگوں پر جو صدقہ و زکوات حاجتمندوں کے لئے حرام اور اپنے لئے حلال قرار دیتے ہیں ۔
