تحریر:ایڈووکیٹ آزاد پرواز
زندگی کی تعمیر شعوری عمل کا نتیجہ ہوتی ہے ۔علم کی حد ود واقفیت سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ معلومات کا خزانہ ہوتا ہے۔ علم سے پرکھ اور شناخت پیدا ہوتی ہے ۔ علم کی تمثیل سورج کی روشنی کے مانند ہ ہوتی ہے ۔روشنی کے بعد چیزوں کی پرکھ کے واسطے آنکھیں اور شے کا ہونا لازمی ہے۔گو کہ روشنی بصارت والی آنکھ اور نظارہ لازم ملزوم ہیں ایک دوسرے کے واسطے ۔ اگر یہ تینوں اپنی فطری حالت میں مکمل ہوں پھر عقل سے سلسلہ تحقیق شروع ہوتا ہے کہ کون سی شے کی کیا کیا خصوصیات ہیں ۔ عقل چونکہ تسخیر کایئنات کا واحد اور فطری نمونہ ہے ، عقل اپنے عمل کے لحاظ سے کاریگر یا مزدور ہے ، اس کے لا تعداد ہُنر ہیں ۔ عقل نے زمانے کے تغیر و تبدل کے ساتھ ساتھ اپنا ہُنر ثابت کیا ہے ، اسی لئے اس کو تخلیق کا تاج مانا جاتا ہے عقل کا بنیادی عمل غور و فکر ہے ۔جہاں سے جانکاری اور پہچان پیدا ہوتی ہے ، جس کا آفاقی نام ’’ علم ‘‘ ہے۔ علم کے بعد تجربہ معرض وجود میں آتا ہے ۔ تجربہ کے بطن سے مقصد پیدا ہوتا ہے پھر عملی اقدام شروع ہوتے ہیں۔ عمل کے بعد نتیجہ اور آخر پہ احتساب جو کہ ہر عمل کا لازمی جُز ہے ۔ یہی سے زندگی کا فیصلہ ہوتا ہے ، تواریخ سے یہی ثابت ہے کہ جب اور جہاں بھی احتساب کو پس پردہ ڈالا گیا ۔ پھر وہ نظریہ دلائل یا غور فکر کے لحاظ سے کتنا بھی مضبوط کیوں نہ ہو ، زوال پذیر ہوا ہے ۔ حتی کہ اس نظریہ کی نسل کے پاس اسلاف کے حیرت انگیز واقعات ضرور ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ معجزات اور کرامات بھی ہوتی ہیں۔ مگر ان کی حقیقت دل ربا داستانوں کے سوا کچھ نہیں ہوتی ۔ وہ قوم شعوری طور پر صدیوں پرانی تہذیبی زندگی میں ہوتی ہے ۔ اس قوم کی قوت فکر و عمل فنا ہوچکی ہوتی ہے ۔ سانسوں کی ڈوری کے علاوہ وہ گوشت سے بنے اوزاروں کے مجسمے ہوتے ہیں ۔ اس قوم کی زمانی حالت میں کال ، امروز اور فردا کے ضوابط کے برعکس امر وز ہی زندگی ہوتا ہے ۔ وہ اس لئے چلتے پھرتے ہیں کیونکہ وہ زندہ ہوتے ہیں ، اور اختتام زندگی تک کھاتے پیتے سانس لیتے اور چھوڑتے ہیں ۔ اس قوم کا آنے والا کل گزرے ہوئے پچاس ساٹھ برس کے کل سے کچھ مختلف نہیں ہوتا ہے ، ان کی نظریں تسخیر زندگی کے برعکس دیوار پہ آویزان کلینڈر ، تکتی رہتی ہیں۔ کہ کس تاریخ پہ اس سے کچھ رسمی کام کرنے مطلوب ہونگے۔ وہ عملی اقدام میں اپنی انانیت پہ فخر کرتے ہیں ، اس کار جہاں میں یہ واضح حقیقت ہے جو عقل جس چیز کی تلاش میں ہوتی ہے ، اس کا کردار بھی اسی تلاش کے موافق بن جاتا ہے ۔ کیونکہ اس فرد کا شعور بھی اسی طریقہ کار پہ جاگتا رہتا ہے انسان کے حواس اپنی تلاش کو جو نہیں پاتا ہے پہچانتے ہیں ، اور پہچاننے کے بعد حاصل کرنے کے طریقہ کا رآزماتا ہے اسی لے حق کا متلاشی مطلوب اور مقصود کو حاصل کرنے کے لئے عملی میدان میں کار بند رہتا ہے ، وہ اپنے شعور کو فکر کے آب و دانہ سے یکسر کرکے ادراک حقیقت پہ مبذول کرتا ہے ۔ اورکبھی اپنی بڑائی کاطلبگار نہیں ہوتا ۔ بلکہ تکمیل تحقیق تک علم کے صحراوں اور بیابانوں میں تلاش حق کا مسافر بن جاتا ہے۔اس کا علم ، عمل اور سفر روز بروز حقیقت کی خوبیوں کا خزانہ بن جاتا ہے ۔ اور جس فرد کی طلب میں نا حق طریقہ کار استمال کرکے اپنی عظمت اور شان و شوکت حاصل کرنے کی سوچ پیدا ہوجائے اس کا نفسیاتی علم بھی وہی بن جاتا ہے ، فطرت سوچ کو طریقہ کار پہ نہ کبھی منع کرتی ہے نہ کرسکے گی ۔ آگ زندگی میں ہوا ، پانی ، اور غذا کے بعد سب سے زیادہ استمال ہونے والی شیہ ہے ، دنیا کی غا لباََ کل اشیاء خوردنی آگ پہ پکا کر پکوان کے صورت میں تیار کی جاتی ہیں۔ اور بطور نعمت استمال ہوتی ہیں ۔ یہ سب تب ہی ممکن ہوتا ہے جب آگ کو مثبت شعورساری دنیا میں زیر کام لاتا ہے یہی نعمت کا خزانہ آگ جب منفی سوچ کے ذریعہ استمال کی جاتی ہے ، تو لفظ خاکستر کہا جاتا ہے۔ حتی کہ نور کا عینی تعلق آگ شعلوں سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ جب اس کو بطور چراغ اندھیرے میں استمال کیا جائے یہ بھی بتاتا چلوں زندگی کے زوال کی تمثیل اندیھرے سے منسوب کی جاتی ہے۔ اور اندھیرے کو مٹانے کے لئے آگ کے علاوہ اورکوئی بھی جُز موجود نہیں ہے ۔ واضح ہو علم بادشا ہ ہے اور عمل وزیر جو کہ سلطنت کا آسمان ہوتا ہے ۔ بادشاہ وزیر کے بغیر عہدہ کا خام مال ہوتا ہے ۔ جوکہ ایک تعارف یا سائین بورڈکے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے ، لہذا آگ بادشاہ ہے اور چراغ اس کا وزیر ، منفی سوچ کے سامنے آگ زوال زندگی ہے ۔ مثبت سوچ کے نزدیک زندگی کے اندھیروں کو نورستان بنانے کے لے یہی آگ ایک قندیل کامقام رکھتی ہے جو صرف خود جلتی ہے اور اپنے ارد گردِ روشنی بکھیر تی ہے ۔ دوسری جانب یہی آگ خود جلنے کے ساتھ ساتھہ اپنے ارد گرد کو بھی بھسم کر دیتی ہے ۔ مسئلہ دونوں کے درمیان صرف احتساب کا ہوتا ہے ۔ غیر محتسب اور محتسب کے درمیان صرف سوچ کے استمال کا فرق واضح ہوتا ہے ، احتساب اپنے من اور وجود کو ضمیر کے کار خانہ سے قابل ضرورت کردار فرہم کرنے کا طریقہ ہے ۔ احتساب کے لئے چیخ پکار کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے ، احتساب کے لے دھوم مچانا وقتی ضیاں ہے ۔ احتساب کوئی اجتمائی نعرہ نہیں ہے ۔ بلکہ ہر فرد کا انفرادی مسئلہ ہے ۔ جو قوم یا فرد اولین حق اور نا حق سے محروم ہو ، وہ قوم نہیں بلکہ جنگل کے مکین ہیں ۔ پھر حق یا نا حق کا شناسائی بھی ہوجائے تو احتساب کرنا بھول جائے وہ فرد یا قوم جو گریباں چاک کرسکتا ہے مگر سینا نہیں آتا کے ضرب المثل سے تعلق رکھتا ہے احتساب انسان کو اطمنان بخشتا ہے اطمنان سے امن قائم ہو جاتا ہے ۔ امن ہی ترقی کا واحد عمل ہے ۔ حالات سوچ کے روبرو نہ کبھی بہتر ہوتے ہیں نہ کبھی ابتر ، شورش یا امن عقل کے پُروردہ ہیں۔ عقل کا مثبت عمل بگاڑ کو بھی اعتدال میں تبدیل کر سکتا ھے۔ عقل کا منفی عمل کا میابی کو بھی ناکامی عطا کر سکتا ہے ۔ اسلئے کھوئی ہوئی چیز پہ افسوس کرنا یا اس کو پھر حاصل کرنے کی جدو جہد کرنا ،، اگر وہ ممکنات میں نہ ہوں ، نئے مواقع سے بھی ہاتھ دھونے کے عوامل ہونگے ۔ زندگی میں کھونا اور حاصل ہونا ایک سکے کے دو پہلو ہیں ۔ جو ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں ۔ مسئلہ سوچ کا ہونا اہم ھے۔ کوئی کامیابی یا ناکامیابی تب تک اپنا مقام نہیں گھیرتی ھے ۔ جب تک سوچ قبول نہیں کرتی ہے۔