پورے ملک میں یکساں تعلیمی نصاب اور نظام قائم کرنے کے لئے حکومت بہت جلد ضروری اقدامات اٹھارہی ہے ۔ اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ جموں کشمیر میں بھی پورے ملک کے ساتھ اس طرح کا تعلیمی نظام رائج ہوگا ۔ انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ اس غرض کے لئے پہلے ہی ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔ کمیٹی مختلف پہلووں کا جائزہ لے کر ضروری مشورے پیش کرے گا اور یکساں تعلیمی نظام نافذ کرنے میں مددگار ثابت ہوگی ۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت نے سرگرمیاں تیز کردی ہیں اور بہت جلد حتمی فیصلہ لیا جائے گا ۔ یکساں تعلیمی نظام نافذ کرنے کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس ذریعے سے تعلیمی نظام مضبوط کرنے میں مدد ملے گی ۔
تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے مبینہ طور پچھلے کئی سالوں کے دوران مختلف سطحوں پر کوششیں جاری ہیں ۔ گوکہ پچھلے تین سالوں کے دوران پورے ملک بلکہ پوری دنیا کے ساتھ جموں کشمیر کا تعلیمی نظام بھی متاثر رہا ۔ کووڈ بندشوں کی وجہ سے پرائمری سطح سے لے کر یونیورسٹی درجوں تک تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو سخت دشواریوں کا سامنا رہا ۔ اس دوران فاصلاتی تعلیم کو رائج کرنے کے لئے کئی اقدامات اٹھائے گئے ۔ تکنیکی مدد لے کر طلبا کو تعلیم دینے کے نئے تجربے کئے گئے ۔ ایسے بہت سے تجربات کافی کامیاب رہے ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ پسماندہ علاقوں اور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لئے ایسی تعلیمی سہولیات تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہ ہوا ۔ اس وجہ سے ایسے طلبہ کے اندر کئی طرح کی کمزوریاں پائی گئیں ۔ اس دوران انتظامیہ نے امتحانات کے دوران طلبہ کی مدد کرنے لئے ان کے لئے ایسی سہولیات کا اعلان کیا جن سے انہیں آگے بڑھنے میں مدد ملی ۔ اس دوران طلبہ کے اندر جو لرننگ گیپس رہیں ان پر قابو پانا ممکن نہ ہوا ۔ اس دوران یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسکولوں کے اندر بنیادی ڈھانچہ تشکیل دینے میں حکومت کامیاب نہیں ہورہی ہے ۔ خاص طور سے دور دراز دیہات کے طلبہ کو ضرورت کے مطابق اساتذہ فراہم کرنا حکومت کے لئے ممکن نہیں ہورہاہے ۔ اساتذہ شہری علاقوں کو چھوڑ کر دوردراز علاقوں میں ڈیوٹی دینے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ اس وجہ سے اساتذہ کی بڑی تعداد ایسے اسکولوں کے اندر تعینات ہیں جہاں سرے سے طلبہ داخل نہیں ہیں یا بہت کم تعداد میں طلبہ درج ہیں ۔ کئی بوگس اسکول بھی پائے جاتے ہیں جہاں سے اساتذہ تنخواہ تو حاصل کرتے ہیں لیکن اسکولوں کا کہیں وجود ہی نہیں ہے ۔ سرینگر اور جموں کے شہری علاقوں کے بارے میں کئی بار ایسے اعداد و شمار سامنے آئے جن سے معلوم ہوا کہ ایک طالب علم کئے تین چار اساتذہ تعینات ہیں ۔ پہلے اس کے لئے سیاسی حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور یقین دلایا گیا کہ ایسی غیر منصفانہ پالیسی کو بہت جلد ترک کیا جائے گا ۔ لیکن عملی طور کچھ بھی نہیں کیا جاسکا ۔ تعلیمی اداروں کے اندر ایسی لاقانونیت آج تک پائی جاتی ہے ۔ اس سے اندازہ ہورہاہے کہ اثر و رسوخ کے حامل افراد کسی بھی حکومت کو اپنی سہولیات کے لئے بڑی آسانی سے مجبور کرسکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کی کوشش رہتی ہے کہ پرائیویٹ تعلمی اداروں کے اندر اپنے بچوں کو داخل کرائیں ۔ سرکاری تعلیمی ادارے اب صرف غریبی کی سطح سے بہت نیچے زندگی گزارنے والوں کے لئے مخصوص ہوکر رہ گئے ہیں ۔ اس طبقے کے لئے بیروکریسی کبھی بھی فکر مند نہیں رہی ہے ۔ ایسے میں اس بات کی توقع کرنا ک تعلمی نظام کو بہتر بنایا جاسکے بہت مشکل ہے ۔ انتظامیہ نے پچھلے ایک سال کے دوران درجنوں ایسے اساتذہ کو ملازمت سے برخواست کیا جو ملک سے ہجرت کرکے دوسرے ممالک میں آباد ہوئے ہیں لیکن ان کی نوکری اب تک بحال تھی ۔ تاہم طلبہ کو مساوی تعلیمی سہولیات بہم پہنچانے میں انتظامیہ کو ئی پیش رفت نہیں کرسکی ہے ۔ اس دوران کہا جارہاہے کہ باقی ملک کی طرح جموں کشمیر میں یکساں تعلیمی نظام قائم کیا جارہاہے ۔ یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے ۔ لیکن اس طرح کے نظام سے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا رہے گا ۔ پیوپل ٹیچر ریشو ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے یقینی طور سابقہ پڑے گا ۔ ملکہ سطح پر یہ تناسب یہاں سے بالکل مختلف ہے ۔ پورے ملک میں 35 طلبہ کے لئے ایک استاد رکھا جاسکتا ہے ۔ جموں کشمیر میں ی پانچ طلبہ تک پھیلا ہوا ہے ۔ اس سے جو منفی اثرات پڑنے والے ہیں ان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ یہی صورتحال دوسرے معاملات کے حوالے سے بھی پیش آسکتی ہے ۔ یہ ایسے مسائل ہیں جو نظام پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ۔