ضلع ڈوڈہ کے بھدرواہ سے دو سال بعدمقدس کیلاش یاترا یک بارپھر سے شروع ہوگئی ہے۔ہندو مذہب کے لوگ اس یاترا کو ہر سال ایک تہوار کی طرح مناتے ہیں۔اس یاترا میں نہ صرف بھدرواہ کے لوگ حصہ لیتے ہیں بلکہ جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ بیرون ریاستوں سے بھی عقیدتمند آتے ہیں۔ بھدرواہ کے بزرگوں کے مطابق یہ تہوار چار صدیوں سے چلتا آ رہا ہے۔مقامی اسے میلا کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ کرو انا وبا کی وجہ سے دو سال یاترا متاثر رہی۔ جبکہ دو سال بعد شروع ہوئی کیلاش یاترا میں عقیدت مندوں کے ساتھ ساتھ دکانداروں اور عام لوگوں میں خوشی کا جذبہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ واضح رہے کہ جس طرح دوسرے پروگرام کرونا وائرس کی وجہ سے بند کر دیے گئے تھے اسی طرح کیلاش یاترا بھی دو سال بند رہی کیوں نکہ ملک کے مختلف حصوں سے عقیدت مند اس میں شریک ہوتے تھے۔ اور انتظامیہ کی گائیڈ لائن کے مطابق اس یاترا کی وجہ سے بھی کروانا وایرس میں بہت زیادہ اثرات دیکھنے کو ملتے۔حالات معمول پر آنے کے بعد انتظامیہ نے یہ ردعمل لے کر فیصلہ کیا کہ اس بار یاترا کو درشن کی اجازت دی جائے۔دو سال بعدشروع ہوئی کیلاش یاترا میں پھر سے سے ہزاروں عقیدت مندوں نے حصہ لیا۔ لوگ اس یاترا کو ایک منت کے طور پر بھی پورا کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ یاترا جموں و کشمیر کے مختلف پہاڑوں سے ہوکر گزرتی ہے۔ایک جانب جہاں یہ عقیدت مندوں کے لئے روحانی سکون کا بائس ہے وہیں اس سے مقامی لوگوں کو بڑے پیمانے پر روزگار بھی ملتا ہے۔ اس یاترا کے دوران مختلف طرح کے کاروباری لوگ اپنے کاروبار کا منافع کرتے ہیں۔ حلانکہ گذشتہ دوسال یاترا متاثر ہونے کی وجہ سے کاروباری نظام کو بھی شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑاتھا۔یاترا میں شریک لوگ جن مقامات سے گزرتے ہیں وہ تفریح کا بھی ذریعہ بن جاتا ہے۔بھدرواہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن ماجد ملک نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ یاترا ہر سال اگست کے آخری ہفتے میں بھدرواہ کے کئی پہاڑی علاقوں سے گزر کر مکمل ہوتی ہے۔ جس دوران پہاڑی علاقوں میں کاروباری نظام کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیلاش یاترا بھدرواہ کی ایک تاریخی یاترا ہے۔اس یاترا کے ایک مہینے پہلے سے ہی کئی طرح کی تیاریاں کی جاتی ہیں۔بھدرواہ کے مندروں کو سجایا جاتا ہے لوگوں کے لئے کئی طرح کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ملک نے بتایا کہ اگر اسے کاروباری نظریے سے دیکھا جائے تو یہ یاترا بھدرواہ کے لوگوں کے کاروباری نظام کو بڑھاوا دینے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس یاترا کی وجہ سے معاشی صنعتی اقتصادی نظام کو ترقی آفتہ بنا سکتی ہے۔
ان کے علاوہ بھدرواہ کے سماجی و سیاسی کارکن محمد مجیب نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ بھدرواہ کے لوگ کیلاش یاترا ہر سال ایک تہوار کی طرح مناتے ہیں۔رواں سال بے روزگاری اسمان چھورہی ہے۔ ایسے میں یہ یاترا بھدرواہ کے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کا ایک واحد ذریعہ بنتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دوران بے روزگار نوجوانوں کو کئی طرح کے روزگار فراہم ہوتے ہیں۔وہ مقامی پکوان بنا کر لوگوں میں فروخت کرتے ہیں۔ جس سے انہیں کافی اچھی آمدنی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ گھوڑے والے بھی اپنے گھوڑوں کو استعمال میں لا کر پیسے کمانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ یاتریوں میں حصہ لینے والے عمر رسیدہ لوگوں کو گھوڑوں پر سوار کیا جاتا ہے اور ان سے سفر کے مطابق پیسہ لیا جاتا ہے جو یہاں کے روزگار کا ایک اہم حصہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے دکان دار مقامی طور پر تیار کردہ جموں کشمیر کے مصنوعات کی مارکیٹ لگا کر کافی منافع کماتے ہیں۔
علاوہ ازیں رفاقت میر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیلاش یاترا ہندو مسلم سکھ عیسائی کے اتحاد میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اس یاترا کی وجہ سے ان علاقوں میں بنیادی سہولت بھی کافی بہتر ہے۔ جس کا فائدہ بھی مقامی لوگوں کو ہوتا ہے۔ اس دوران گاڑیوں کی آمد و رفت بھی بہت زیادہ رہتی ہے۔جس کی وجہ سے لوگوں کو بھی سفر کرنے میں آسانی رہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کیلاش یاترا کی وجہ سے بھدرواہ کے ان تمام سڑکوں پر تارکول بچھایا گیا جن سڑکوں سے کیلاش یاترا کی یاتری سفر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقع میں سیاحتی مقامات کو بڑھاوا دینے میں کیلاش یاترا کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ان کے علاوہ سماجی کارکن شاہنواز میر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس یاترا میں حصہ لینے کے لیے جموں و کشمیر کے مختلف حصوں کے ساتھ ساتھ بیرون ریاستوں سے بھی لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے۔ اس دوران لوگ یہاں پر کئی طرح کی چیزیں خریدتے ہیں جبکہ پہاڑی علاقوں میں ہاتھوں سے بنائے جانے والی چیزیں بھی لوگوں کو اپنی طرف متاثر کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیلاش یاترا میں حصہ لینے والے کئی ماحول دوست یاتری یہاں پر چھوٹے چھوٹے درخت بھی خریدتے ہیں جس سے باغبانوں کو بھی بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ بھدرواہ ایک باغبانی والا علاقہ ہے جہاں پر کئی طرح کے میوے جات پائے جاتے ہیں۔ایسے میں کیلاش یاترا میں حصہ لینے والے لوگ ان میوہ جات کو خریدے بغیر اپنے آپ میں وہ کمی محسوس کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں جب ہم نے ایک یاتری کشتواڑ سے تعلق رکھنے والیسریش کمار سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ یوں تو ہمارے مذہب میں بہت ساری یاتراوں کا سلسلہ ہے۔ لیکن کیلاش یاترا ان میں سب سے مختصر یاترا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیلاش یاترا میں سفر کرنے کے دوران کئی طرح کی ضرورتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جس طرح لوگ محنت اور مشقت کے ساتھ ان پہاڑی علاقہ جات میں اس دوران اپنے کاروباری نظام کھولتے ہیں یہ ہم یاتریوں کے لئے بہت ہی زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ اس بہترین نظام کی وجہ سے پانی کھانا پینا وغیرہ انہیں ہرجگہوں پر دستیاب ہوتا ہے۔انہوں نے مقامی لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وجہ سے کیلاش یاتریوں کو کسی بھی طرح کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح بے روزگاری آسمان کو چھو رہی ہے ایسے میں مقامی لوگوں کو اس کے ذریعہ روزگار ملنا خوشی کی بات ہے۔
بہرحال کیلاش یاترا کا پھر سے شروع ہونا جہاں ہندو عقیدتمندوں کے لئے خوشی کا پل ہے وہیں ایک بار پھر سے مقامی لوگوں کو روزگار کے لئے پردیس جانے کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس علاقع کوسیاحت کے نقشے پر اس طرح فروغ دے کہ صرف کیلاش یاترا کے دوران ہی نہیں بلکہ سالوں بھر لوگوں کو یہاں روزگار فراہم ہو سکے۔ (چرخہ فیچرس)