سرینگر کے راجباغ ایریا میں اس وقت خوف وہراس پایاگیا جب یہاں اتوار کو دو شیر نمودار ہوئے ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سرینگر میں جنگلی جانوروں کی موجودگی کا پتہ لگایا گیا ۔ اس سے پہلے گپکار ، صورہ اور دوسرے کئی علاقوں میں جنگلی جانوروں کو دیکھا گیا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جنگلی جانوروں کی موجودگی کچھ علاقوں تک محدود نہیں ۔ بلکہ ان کا خطرپہاڑی علاقوں سے سرینگر کے اندرونی علاقوں تک پایا جاتا ہے ۔ یہ سخت مایوسی کی بات ہے کہ اس طرح کے واقعات آئے دن بڑھ رہے ہیں ۔ ہر دن اور ہر ہفتے جنگلی جانوروں کے حملوں کی اطلاعات آتی ہیں ۔ کئی شہری زخمی کئے جانے کے علاوہ کئی معصوم بچے ہلاک کئے گئے ۔ جنگلی جانوروں کے ان حملوں کی وجہ سے کئی شہری ناخیز ہوگئے ۔ سرینگر میں پائے گئے مادہ ریچھ اور اس کے بچے کو مبینہ طور پکڑ کر داچھی گام کے جنگل میں چھوڑا گیا ۔ وقتی طور تو خطرہ ٹل گیا ۔ لیکن یہ خطرہ بہر حال موجود رہے گا ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ جنگلات ان خطرات کو ٹالنے میںناکام رہاہے ۔
جنگلات سے جانوروں کی شہری علاقوں کو منتقلی ایک تشویشناک مسئلہ ہے ۔ اس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں ۔ ماہرین نے بہت پہلے حکومت اور متعلقہ اداروں کو باخبر کیا کہ جنگلی جانور شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جنگلوں میں جانوروں کے لئے کھانے پینے کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ۔ جنگلوں میں ان جانوروں کے لئے خوراک موجود نہیں رہاہے ۔ میووں کے جو خود رو درخت پائے جاتے تھے وہ اب یہاں موجود نہیں ۔ اسی طرح وہ جانور ناپید ہوگئے جو ریچھ اور دوسرے جانوروں کا خوراک بنتے تھے ۔ اس کے علاوہ گلیشر پگلنے سے پانی کا مسئلہ بھی پیدا ہوگیا ۔ اس وجہ سے جنگلی جانور بستیوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ خاص طور سے ریچھ اور ایسے جانوربستیوں کی طرف منتقل ہورہے ہیں جو گوشت خور ہیں ۔ ایسے گوشت خور جانوروں کو ایک بار انسانی گوشت کی لت پڑے تو یہ اس کو باربار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ غلط نہیں کہ کبھی یہ جانور راستہ بھٹکنے کی وجہ سے بستیوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔ اصل وجوہات اپنی جگہ موجود ہیں ۔ اس دوران ضروری ہے کہ انسانی بستیوں کو جنگلی جانوروں سے محفوظ کرنے کے اقدامات کئے جائیں ۔ سرینگر سے ریچھ کو اٹھاکر واپس جنگل میں لے جانا راحت کا باعث تو ہوسکتا ہے ۔ لیکن مسئلے کا حتمی حل نہیں ہے ۔ اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچ بچار کی ضرورت ہے ۔ جنگلی جانور صرف کشمیر کے جنگلات میں نہیں پائے جاتے ۔ ملک کے بہت سے علاقوں میں جنگل ایسے جانوروں سے بھرے پڑے ہیں ۔وہاں اس طرح کے واقعات بہت کم پیش آتے ہیں ۔لیکن کشمیر میں آئے روز سامنے آتے ہیں ۔ اس کی کچھ وجوہات بتائی جاتی ہیں ۔ ان کی حقیقت سے انکار نہیں ۔ لیکن حفاظت کے اقدامات کا کہیں پتہ نہیں چلتا ۔ محکمہ جنگلات کے آفیسروں کو کہیں سے جنگلی جانوروں کے حملے کی اطلاع ملتی ہے تو ان کی نیند ٹوٹ جاتی اور وہ اپنے اہلکاروں کو متحرک کرتے ہیں ۔ پھر ایسے جنگلی جانوروں کو پکڑنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ایسی کوشش کامیاب ہوجائے تو محکمہ پھر سو جاتا ہے ۔ یہ لوگوں کو بچانے کا کوئی بڑا کارنامہ نہیں ۔ کسی ریچھ یا تیندوے کو پکڑ کر واپس جنگل میں لے جانا انسانوں کے لئے بچائو کا کوئی بڑا اقدام نہیں ۔ یہ اقدامات پچھلے دس سالوں سے جاری ہیں ۔ اس کے باوجود ایسے حملوں میں اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ سرینگر میں ریچھ نے اپنی موجودگی کی ایک ہی جھلک دکھائی توادارے متحرک ہوگئے۔ اسکولوں کی چھٹی کی گئی اور لوگوں کو گھروں میں بیٹھنے کو کہا گیا ۔ اس وقت تک پورا شہر الرٹ ہوگیا جب تک ریچھ کو پکڑا نہیں گیا ۔ اس سے پہلے کئی طالب علم ایسے حملوں میں مارے گئے ۔ کسی کی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگلی جانوروں کو آبادیوں کا رخ کرنے سے روکا جائے ۔ حکومت قدرتی آفات سے متاثرین کے لئے امداد فراہم کرتی ہے ۔ لیکن جنگلی جانوروں کے حملوں سے مارے جانے اور متاثر ہونے والوں کے لئے کوئی ریلیف نہیں ہے ۔ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ لوگوں کو کچھ راحت ملے ۔ اس کے علاوہ منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے جس سے جنگلی جانوروں کو بستیوں کا رخ کرنے سے روکا جائے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسا ممکن نہیں ۔ یہ غلط سوچ ہے ۔ جنگلوں میں وہاں رہنے والے جانوروں کو کھانے پینے کی چیزیں اور انسانی مداخلت سے نجات دی جائے تو یہ جانور بستیوں کا رخ نہیں کریں گے ۔