یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب ہمارے علاقہ گول میں تلوار کی دھار جیسی ایک سڑک تھی جو اہلیانِ گول کیلئے شہر جموں اور وادی کشمیرتک پہنچنے کاواحد ذریعہ تھی۔یہ سڑک جہاں ہمیں گول سے مشرق کی جانب رام بن سے گزرتےہوئےجموں اور کشمیر لیجاتی تھی وہیں یہ سڑک ہمیں مغرب کی جانب جاتے ہوئے مہور گلاب گڑھ بھی پہنچا دیتی تھی۔گول میں اِسی سڑک کے آس پاس چند دُکانیں ہوا کرتی تھیں اُن دکانوں میں ایک دُکان مرحوم و مغفور عبدالصمد لوہار صاحب کی تھی ۔صمد صاحب اُس زمانے کے جانے مانے تاجر تھےجو شہر جموں سے اشیاء ضروریہ پہنچا کر اہلیان گول کے ہاں فروخت کیا کرتے تھے۔گوکہ اُس زمانے میں گول کے دیگر تاجران بھی تھے لیکن اُن کی حیات و خدمات کو کسی وقت الگ سے تحریر کے سانچے میں ڈھال کر آپ کے سامنے پیش کیا جائے گا ،گرچہ زندگی نے وفا کی۔جہاں تک مرحوم و مغفور عبدالصمد لوہار کی حیات و خدمات کا ذکر ہےتو ناچیز اُن کی زندگی کے چند اہم گوشوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا، اُمید ہے قارئین حضرات ماضی میں انجام دی گئی اپنے بزرگوں کی خدمات سے محظوظ ہونگے اور آج جس زمانے میں ہم ہر قسم کی سہولیات کو اپنے گھر کی دہلیز بلکہ دنیا کو مٹھی میں کئے ہوئے ہیں اِس سب کو یقینی بنانے کیلئے ہمارے اسلاف نے کتنی محنت اور جفاکشی کی ہے۔
قابل ِ ذکر ہے کہ مرحوم و مغفور عبدالصمد لوہا ر جہاں پیشہ ٔ تاجری میں ایمانداری، دیانتداری ،حق گوئی اور شفافیت کااک مثالی کردار تھے وہیں وہ سیاسی طور بھی عوامی خدمات میں کسی مسیحا سے کم نہیں تھے، مرحوم عبدالصمد لوہار نے اپنی پوری زندگی اِنتہائی، شرافت، سادگیکیساتھ گزاری۔ بحیثیت ایک تاجراُن کا گاہکوں کے ساتھ سلوک انتہائی عاجزانہ ،مخلصانہ، منصفانہ اورعاقلانہ تھا۔ علاقہ کے بیشترلوگ عبدالصمد لوہار صاحب کے اِس بلند کردار کے باعث اُن کی ہی دُکان سے سودا سلف خریدتے تھے۔ اُس زمانے میں جب گول میں گاڑیاں بڑی مشکل سے آیا کرتی تھیں تب عبدالصمد لوہار اپنے علاقے کی عوام کیلئے اُن کی دہلیز تک اشیاء ضروریہ پہنچایا کرتے تھے ، علاقہ کا منحصر بھی اِسی پر تھا اِس سبب مرحوم عبدالصمد لوہار نے لوگوں میں اپنا اک اچھا مقام پا یاتھا ، اک منفرد پہچان بنائی تھی ، لوگ اُنہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ مرحوم اپنے بلند خیالات اوربلند تجربات کے سبب آج بھی زندہ جاوید ہیں،آج بھی اہل گول کو اُس جیسے دیانتدار اورایماندار تاجر کی ضرورت ہے، اُس جیسے عوام دوست،غریب پروراور مخلص رہنما کی ضرورت ہے۔اِس میں کوئی شبہ نہیں اور یہ انسان کی فطرت ہے کہ اِس جہاں سے کوچ کرجانے والے ہر فرد کو انسان چند مہینوں یا سالوں بعد بھول جاتا ہے لیکن ایسے میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنھیں بھول کر بھی بھلایا نہیںجا سکتا،اُن کے کردار، اُن کی خدمات، اُن کے اوصاف، اُن کا انسانیت کو دوام بخشنے کے کارنامے اُنہیں خاک اوڑھنے کے بعد بھی سماج کا اہم ترین حصہ بنائے رکھتے ہیں۔ یوں کہا جائے کہ ماضی میں اُن ہی کے نبھائے گئے مثالی کردار کے باعث سماج میں جو کچھ بھی بہتر ہوا نظر آتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ایسی ہی قائدانہ اور منصفانہ شخصیات میں مرحوم عبدالصمد لوہار کا شمار بھی ہوا کرتا ہے۔
مرحوم عبدالصمد لوہار نے یوں تو اپنا سیاسی سفرجوانی میں ہی شروع کیا تھا،چونکہ وہ محاذ رائے شماری کے دور میں بھی کافی سرگرم رہے ،یہی و جہ ہے کہ صمد صاحب کو شیخ محمد عبداللہ کیساتھ کافی مراسم تھے پھر شیخ عبداللہ کے صاحبزادے فاروق عبداللہ کیساتھ بھی بہتر تعلقات تھےبلکہ پوراشیخ خاندان صمد صاحب کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھا۔ غالباً1996میں نیشنل کانفرنس کی قیادت نے عبدالصمد لوہار صاحب کو باضابطہ طور بلاک صدر کی ذمہ داری سونپی اور زندگی کی آخر سانس تک وہ نیشنل کانفرنس میں بطورِ بلاک صدر کام کرتے رہے ۔
صمد صاحب جیسی شخصیت کی حیات و خدمات پر مکمل طور لکھا جائے تو بہت طویل کام ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں شخصیات سے متعلق مکمل معلومات حاصل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن سا کام ہے۔میں بے حد مشکور و ممنون ہوں اپنے ساتھی بھائی شبیر احمد وانی صاحب کا جنھوں نے یہ مختصر سی معلومات حاصل کرنے میں راقم کی بھر پور مدد کی، لیکن راقم کو انتہائی شکوہ بھی رہے گا کہ عبدالصمد صاحب کے صاحبزادے نے مرحوم صمد صاحب کی حیات و خدمات سے متعلق معلومات دینےمیں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔کاش !!مرحوم صمد صاحب کی حیات و خدمات کی مکمل معلومات فراہم ہوئی ہوتی تو ظاہر ہے کہ راقم مرحوم کی شخصیت کے اہم پہلوؤں کو صفحہ ٔ قرطاس پر اتارنے میں اپنی حیثیت کے مطابق انصاف کرپاتا ،لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ خیرہر انسان کو اپنے حصے کا چراغ روشن کرنا چاہیے یہ فکر کئے بغیر اُس کے روشن کئے ہوئے چراغ کی روشنی سے کو ئی فیض حاصل کرے یا نہ کرے ۔
آخر میںآپ تمام معزز قارئین سے یہ کہتا چلوں کہ نظام اور حالات کو بہتر بنانے کیلئے ہم جتنا بھی بہتر کر رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں وہ سب قابلِ داد ہے لیکن جب تک ہم ماضی کو حال سے اچھی طرح واقفیت نہیں کرائیں گے ،بیتے لمحوں کے مثبت رویوں پر بات نہیں کریں گے اُس کا پرچار نہیں کریں گےتب تک ہم نہ ہی اپنے حال کو بہتر ڈھنگ سے سنوار سکتے ہیں اور نہ ہی روشن مستقبل کی راہیں ہموار کرسکتے ہیں۔ یاد رہے اِس علاقے کی خوشحالی اور صحتمند معاشرے کی تکمیل کیلئےآج تک نا جانے کتنے بزرگ ،کتنی مائیں ، کتنی بہنیں اورکتنے نوجوان خود کو قربان کر کے اپنے حصے کی شمع روشن کرگئے ہیں ،جنھیں کسی بھی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔اِس لئے ہم سب کا فرض بنتا ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے مثبت کردار کو نسل ِنو کے سامنے لائیںتاکہ نسل ِ نو فیض حاصل کر کے اپنے ماضی سےباآسانی واقفیت حاصل کر سکے،ایک دوسرے پر تنقیداور شکوہ کرنے کے بجائے اپنے اپنے حصے کا چراغ روشن کرتے چلے جائیں،بقولِ شاعر ۔۔۔۔۔۔۔
شکوہء ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر ہے
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے ‘جاؤ