تحریر: ش،م ،احمد
یہ کس خوشی کی ریت پرغموں کو نیند آگئی
وہ لہر کس طرف گئی یہ میںکہاں سما گیا
یکم اگست کو حبہ کدل سر ینگر میں ایک اور جواں سال لڑکی نے سبک رفتار جہلم میں پُل سے کو د کر اپنی جان گنوا دی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ماہر غوطہ خوروں نے لڑکی کی تلاش دو دن تک جاری رکھی ‘ بالآخر اس کی لاش جائے واردات سے کچھ فرلانگ دور جہلم کے سینے پر تیرتی ہوئی برآمد ہوئی ۔ الاماں والحفیظ۔
سوشل میڈیا نے فوراً سے پیش تر کم نصیب لڑکی کے آخری لمحات کا ڈراؤنامنظر بہ نگاہ ِ حسرت دنیا کودکھایا ۔ ویڈیو کلپ کی وساطت سے دنیا جہاں نے دیکھ لیا کہ خودکشی کر نے والی وطن کی کوتاہ بخت بیٹی کچھ ہی سیکنڈ میں جہلم کے آغوش میں سما کر ہمیشہ کی نیند سوگئی۔ دریا ئے جہلم کے شکم میں غائب اس لڑکی کا سفرِ برزخ دفعتاً شروع ہو ا ۔اس سفر سے آج تک کوئی واپس نہیں لوٹا۔ البتہ راقم الحروف نے جہلم میں ڈوبتی لڑکی کا رقص نیم بسمل دیکھ کر دُکھی آتما کے ساتھ محسوس کیا جیسے موت کی بے رحم وادی میں قدم رکھتے ہوئےوہ ہاتھ پیر ما رکر بزبان ِ حال کہہ رہی ہو: تماشہ گیرو! میں تمہاری اپنی لاڈلی بیٹی ہوں‘ تمہاری اپنی پیاری بہن ہوں‘ میں اب تک تمہارے ہی درمیان جی رہی تھی ‘ میری زندگی غموں سے چُور تھی ، میرا تھکا ماندہ وجودحوصلوں سے عاری تھا‘ میں اپنے غمگین رُوح کے ساتھ اندر سے ٹوٹ چکی تھی‘ میںمایوسی وبے بسی کی مورت بنی جی رہی تھی‘ مجھے یاس وحرماں نصیبی کی شاہراہ پر بھٹک کر بہت بارلگا کہ کیوں نہ اپنی جان لے کرزندگی کے کڑوےمسائل سے فرار پاؤں‘ کچھ راحت کی سانس لوں ‘ کچھ شاد کامی کا مزہ لوں ‘ مگر اُف! یہاں جہلم کی پانیوں میں ہیبت ناک موت مجھے اپنی وَحشتوں سے اور زیادہ ڈرا رہی ہے‘ موت کی ہچکیاںغم وانددہ کا بھاری بوجھ میرے کمزور شانوں پر ڈالے جارہی ہیں ‘خدارا مجھے ظالم موت کے آہنی پنجوں سے بچاؤ‘ میں واپس غم و الم کی دنیا میںآکر اپنے مسائل سمیت جینے کو اب تیار ہوں ‘ مجھے دنیا میںآکر غم کی زنجیریں قبول ہیں‘ مایوسیاں بھی منظور ہیں ‘ میں تکلیفوں اور ناکامیوں سے ہمت کےساتھ رشتہ نبھا نے کا وعدہ کرتی ہوں ‘ میں تقدیر کی اُلٹی سیدھی لکیروں سے اب کوئی گلہ نہیں کروں گی‘ بس مجھے جینے کا صرف ایک موقع دو۔۔۔ مایوس لڑکی کی یہ لڑکھڑاتی اَ ن سنی دُہائیاں جہلم کی بے رحم لہروں میں پلک جھپکتے ہی دم توڑ بیٹھیں اور لڑکی ایک بے گور وکفن تیرتی لاش بن کر رہ گئی۔زندگی سے مایوس وبدل جوان عمر لڑکی نے بہر صورت موت کو بنا سوچے سمجھےگلے لگایا‘ وہ موت کی بانہوں میں زندگی کی لوری سننے کے اپنے مہنگے شوق کوپورا کر گئی‘ مگر کیا اس نے اپنی سوچ کے مطابق خود کشی سے زندگی کی حقیقی یا فرضی کڑواہٹوںسے چھٹکارا پایا بھی ‘ یہِ کوئی نہیں جانتا۔ ہاں اُس نے اپنی خود کشی سے سماج میں جہاں ایک غلط نظیر قائم کی ‘ وہاں تیکھے سوالات بھی کرڈالے۔
عوام کے لئے یہ دل دوزواقعہ ایک سنسنی خبر بنا‘اُس کے گھر والے‘ سہیلیاں اور عزیز واقارب بہت دیر تک آنسوؤں کے جہلم میں ڈوب کر اور سسیکوں کے زمستان میں ٹھٹھر کراپنا من ہلکا کر تے رہیں گے اور پھر اُن کی زندگی کا پہیہ بھی اپنی روایتی محور پر گھومتا رہے گا۔ یہی دستورِ دنیا ہے۔ تاہم جاتے جاتے بد نصیب لڑکی نے اپنے پیچھے تند وتلخ سوالات کی ایک بوچھاڑ ہمارے سنگ دل معاشرے پر کر ڈالی ‘ کیا ہم میں سے کسی کے پاس ان اہم سوالوں کا جواب ہے؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ موت کے ہاتھوں زندگی سے بدلہ لینے والی یہ نامعلوم لڑکی جینا کیوں نہیں چاہتی تھی؟ کسی کو جواب معلوم ہے ؟ کیا وہ ایک غیر تشخیص شدہ ذہنی مریضہ تھی؟ ماہرین ِنفسیات کی مانیں تو خود کشی
کر نے والا یا کرنے والی ذہنی مر ض میںمبتلا جیتا جاگتا چلتا پھر تا انسان ہوتا ہے ۔ اس کے سر پر سینگ نہیں ہوتے ۔ سائیکلوجی والے اس انتہائی اقدام کی یہی ایک توجیہہ کرتے ہیں ۔اُن کی رائے میں اس قسم کے نفسیاتی طور لاعلاج مریض پر جب کبھی یک بار مایوسی اور بے چینی کی سونامی ٹوٹ جائے ‘تو اس کے اندر جینے کی تمام آرزوئیں یکسر ختم ہوجاتی ہیں‘ نااُمیدیاں اُسے پاٹھ پڑھا دیتی ہیں کہ دل کا سکون پانا ہے تومر جانا پہلا ناگزیر قدم ہے ۔ اصل میں اُس کے اندر پر یشان کن حالات یا صبر آزما مسائل ِحیات سے مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہمتیں اس قدر جواب دے چکی ہوتی ہیں کہ وہ موت کو سہل الحصول سکون و اطمینان کا راستہ اور آرام دہ مقصد سمجھنے کی فاش غلطی کر بیٹھتا ہے ۔ زندگی کے نشیب وفراز سے تنگ آنے والا ایسا ذہنی مریض آخر کار اپنے ذہن میں غلط عزم کا کوڑا چھپا کر اور ہاتھوں میں اپنے مذموم ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بزدلی کاخنجر یا رسا تھام کر یا کوئی اور مجرمانہ کام کر کے خود کو زندگی کی بندھنوں سے آزاد کرتا ہے مگر بدلے میں کیا پاتا ہے‘ ہزار ہا گنا شدید اذیتوں کے ساتھ موت کا پنجہ اور خدائی سزا وعقوبت‘ یعنی ایک سراب۔ کسی شاعر نے اس صورت حال کی تصویر کشی خوب کی ہے ؎
وہ چھت جو گھر کا سب سے پر سکوں اور پیارا حصہ تھی
کسے معلوم تھا وہ خودکشی کے کام آئے گی
ماہرین ِنفسیات کی اس توجیہہ کو قد آدم آئینہ سمجھ لیجئے اور پھر اس کے سامنے حبہ کدل سری نگر میں اپنی جان جہلم کی ظالم موجوں کی نذر
کر نے والی کوتاہ نصیب لڑکی کو کھڑا کیجئے ‘ اس کی نفسیاتی دنیا کاحقیقت پسندانہ تجزیہ کیجئے‘ اس داستانِ دنیا کے کونے کونے کو ٹٹولئے ‘ باریک بینی سے اس کی اَ ن کہی کہانی کے تمام کردار چھان ماریئے‘ پھر جا کر فیصلہ دیجئے کہ کیا اس نے موت کا راستہ چن کر اپنا کوئی بھلا کیایا بُرا کیا؟ آپ اس جگر سوز سانحہ پر ماہرین ِ نفسیات کی چجی تلی رائے کی روشنی میں غور وفکر کا کتنا بھی تکلف بھی اٹھائیں مگر پھر بھی شاید ہی آپ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اپنی زندگی سے جفا کر نے والی بچی کا بظاہر ذہنی توازن بگڑا ہوا تھا‘ اس لئےبدحواسی کے عالم میں یہ معیوب ترین حرکت کر بیٹھی؟ اگر بالفرض ہم اور آپ پیش آمدہ المیے کی درپردہ کہانی کے تاروپود کو کھولنے میں کا میاب بھی رہیں تو بھی مخمصے میں پڑیں گے ۔ قیامت تک ہمارے ضمیر کا منصف اور فہم کا میر منشی اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب ہی نہیں دے پائے گا کہ لڑکی نفسیاتی طور بیماری تھی یا اس کی مایوسی وہراسانی کا فسانہ کچھ اور تھا؟؟؟
خود کشی کے اسباب ومحرکات پر سماجیات اور اخلاقیات کےماہرین اپنے اپنے اندازِ فکرا ور نقطۂ نگاہ سے توضیح کرتے ہیں ۔ اُن کی سنئے تو خود کشی کا اقدام ظاہراً کسی ایک فرد کی ناکامی کا زندہ اشتہار ہوتی ہے‘بالکل ٹھیک مگر اس کی خودکشی کا راز جاننے یااس سوال کا ایک شافی وکافی جواب پانے کے لئے انتہائی گناہ کے مرتکب ایسے انسان کے باطن میں بھی تھوڑ اسا جھانکئے ‘ تھوڑی سی گہرائیوں میں اُتر کر اس کی سماجی زندگی کی حقیقتوں کا جائزہ بھی لیجئے‘ تھوڑا سا گردو پیش کی پیچیدہ دنیا میں رہنے والے اس شخص کے مزاجی اُتار چڑھاؤ کی بنتی بگڑتی کہانیوں کا چھلکا اُتارکر حقائق کی چھان پھٹک بھی کر ڈالیئے ‘ توآپ لازماً یہ نتیجہ بر آمد کریں گے کہ زیادہ تر خودکشیوں کے پس پردہ ایک واحد مسئلہ ہی ذمہ دار نہیں گردانا جاسکتا بلکہ کئی ایک معاشرتی مسائل بیک وقت ا س انتہائی قدم کے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں ۔ ان تند وتیز مسائل کو سماجی شعور کی بارگاہ میں منصفانہ طریقے پر کھنگالئے تو آپ خود بخود حقیقت کی گتھیاں سلجھا کر فتویٰ دیں گے کہ ہمارے یہاں زیادہ تر خود کشیاں بھلے ہی بے روزگاری کی وجہ سے بڑھتے ہوئے ذہنی تناؤ ‘ منشیات کی فروغ پذیری سے جڑی کارستانیوں‘ کاروباری خساروں کی پیدا کردہ کنگالیوں ‘ ساس بہو میں روز افزوںلڑائی جھگڑوں ‘ جہیزی مطالبات‘ ساس نند اور دیور دیورانی کے اختلافات اور میاں بیوی کے مابین روز کے تنازعات ‘ گھریلو تشدد کے واقعات ‘ غریب گھرانوںکی زائدالعمر بن بیاہی لڑکیوں کی تلخ کامیوں ‘ مسابقتی امتحانات میں نا کامیوں وغیرہ خود کشیوں کا ملا جلا شاخسانہ ہوتی ہیں۔حالات وحوادث کی یہ تمام چوٹیں آپس میںمل کر کسی کمزور اعصاب والے انسان پر اپنا اتنا دباؤ اور اس کے دل پر اتنا درد بڑھاتی ہیں کہ وہ اپنی جان کا دشمن بن بیٹھنا غنیمت سمجھنے لگتا ہے ؎
خود کشی‘ قتل ِ اَنا‘ترکِ تمنا ‘بیراگ
زندگی تیرے نظر آنے لگے حل کتنے
تجر یہ بتا تاہے کہ خود کشی کسی بھی سچے جھوٹے اور چھوٹے بڑے مئلے کا کوئی رتی بھر حل نہیں۔ بلکہ یہ الٹا مسائل کے چیستان کا سبب بنتی ہے۔ اس کبیرہ گناہ میں ملوث ہوئے بدنصیب انسان کے لواحقین پر یہ نازیبا حرکت دائمی عذاب کا کوڑا برسا تی رہتی ہے ‘ جوخود کشی کی موت مر نے والے کی بھٹکتی روح کو اورزیادہ مصائب کا تختہ ٔ مشق بناتی ہے۔ چلئے مانئے ا یسی احمقانہ حرکت کرکے کوتاہ فہم انسان نامساعد حالات سے لمحاتی طور گلو خلاصی پاگیا مگر زندگی دینے والے کی بے عیب عدالت میں اس ناقابل معافی گناہ کے لئےایک دائمی سزا مقرر نہیں ہے ؟اسلام اس حماقت کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ یہ دین انتہائی کرب انگیز حال احوال میں اور ظلم وتشدد کی بد ترین سچوئشن میں بھی ہر ذی روح کو’’لا تحزن‘‘ ( غم نہ کر) کی خدائی اُمید کا سہارا دیتا ہے اور انسانی سعی وکاوش سے زخم زخم حالات بدل دینے کےلئے دلاسے کا مرہم فراہم کرتاہے ۔ بایں ہمہ ہم اس بات کو نکار نہیں سکتے کہ موجودہ تلاطم خیز دور میں ہمارے یہا ںمتواترخود کشیوں کے اسباب ومحرکات سماج کی ہی پیدا کردہ فضاؤں سے جنم پاتے ہیں ۔ یہاں ہونے والی ہر ایک خود کشی سماج کو اندر ہی اندر چاٹنے والی تلخ کامیوں‘ناکامیوں اور نامرادیوں کی کو کھ سے جنم لینے موذی بیماری مانی جانی چاہیے‘ بھلے ہی لوگ سماج کو بھلا چنگا مانتے ہوں‘ وازہ وان کو چٹخارتے ہوں ‘ا مبانی کے مقلد بن کر دھوم دھام سے شادیاں رچاتے ہوں‘ رسومات ِ بد اور جہیزی لین میں دین کی نت نئی جدعتوں سے عالمی ریکارڈ توڑتے ہوں‘ محل نما بنگلوں کی تعمیر میں زندگیاں کھپاتے ہوں مگر ہم یہ بھول نہیں سکتے کہ ان سے امیروں کی مال وزر کی نمائش ہو ہوتو ہو مگر غریب لوگوں کا جینا اتنادوبھر ہوتاہے کہ وہ خود کشیوں کا سراب اپنے لئے منتخب کر نے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ اس لئے ہمارے یہاںاکثر و بیش ترخود کشیاں ایک فرد کا قصور نہیں ٹھہرائی جاسکتیں بلکہ ان کے لئے سماج کو گناہ گار سمجھنا قرین عقل ہے۔ سچ میںجب سماج کٹھورتا ‘ خود غرضی اور سنگ دلی کی حدیں پار کرے‘جب آپا دھاپی کا دور دورہ ہو‘ جب لوگوں میں اندر سےایک دوسرے کے دُکھ درد بانٹنے کا جذبہ ناپید ہوجائے ‘ جب انسانیت‘ خیر خواہی اور پیار و محبت کی جگہ معاشرہ پدرم سلطان بود‘ دیکھا دیکھی‘ نمود و نمائش‘ فضولیات کا سرکس بنا ہوا ہو تو حبہ کدل کے پُل سے جہلم میں کودنے کی الم ناکیاں پر لاکھ واویلا کیجئے‘ جہلم کے سات پُلوں پر ہمالیائی فینسنگ کر ئیے ‘اس موضوع پر اخباری بیانات ‘ کانفرنسیں قراردادیں پاس کیجئے ‘اور وعظ وتبلیغ کر نے میں گنس بک آف ریکارڈ میں خود کو درج کیجئے‘ بے شمار احتیاطی تدابیر کیجئے ‘ قوانین کی کتب کی ضخامت نئےنئے انسدادی قانون بنا کر ہزار بار بڑھائیں‘ جب تک فرد کی سوچ نہیں بدلتی‘ سماج کا سماج مزاج اور ضمیر نہیں بدلتا‘ حبہ کدل کے المیے کا کسی نہ کسی صورت اور کسی نہ کسی شکل میںاعادہ ہوتا رہے گا۔