درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے اور مسلسل خشک سالی سے پورا کرہ ارض متاثر ہورہاہے ۔ اس قدرتی آفت نے کشمیر وادی کو شدید نقصان سے دوچار کیا ۔ حکومت نے اس سے نمٹنے کے لئے تاحال کوئی منصوبہ سامنے نہیں لایا ہے ۔ اس وجہ سے عوامی حلقوں میں سخت مایوسی پائی جاتی ہے ۔ ادھر سیاحتی مقامات کی بدحالی کو دیکھ کر تشویش بڑھ رہی ہے ۔ اہم سیاحتی مقامات پر پانی کی شدید کمی محسوس کی جارہی ہے ۔ پہلگام ، گلمرگ ، سونہ مرگ وغیرہ کے ندی نالے خشک ہورہے ہیں ۔ یہاں موجود گلیشئر سکڑ رہے ہیں ۔ ان جگہوں کی خوبصورتی پانی کی بہتات کی وجہ سے بحال ہے ۔ اب پانی کی کمی سے اندیشہ بڑھ رہاہے کہ ایسے مقامات اپنی دلکشی کھودینے کے قریب ہیں ۔ سیاح پہلے ہی یہاں سے مایوس نظر آتے ہیں ۔ کئی ایک اس بات پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں کہ ایسے مقامات کو قدرتی آفات سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے کوئی کوششیں نہیں کی جارہی ہیں ۔ سرکاری یا غیر سرکاری سطح کا کوئی ادارہ ایسا نظر نہیں آتا ہے جو ان سیاحتی مقامات کو محفوظ بنانے کے لئے فکر مند نظر آرہاہو ۔ کشمیر میں اس حوالے سے مجموعی طور سخت بے حسی پائی جاتی ہے ۔ یہاں کے طبی ادارے لوگوں کی صحت سے کھلواڑ کرنے کے مرتکب پائے جاتے ہیں ۔ جبکہ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے سوا بہت کچھ پایا جاتا ہے ۔ اساتذہ بہت سی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں ۔ تاہم بچوں کی تعلیم و تربیت کرنے سے قاصر ہیں ۔ یہی حالت سیاحتی شعبے کی ہے ۔ سیاحتی مقامات کو تباہ کرنا کوئی الزام نہیں بلکہ حقیقت حال ہے ۔ ایسے تمام مقامات پر گندگی کے جو ڈھیر نظر آتے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان جگہوں کو پوری طرح سے نظر انداز کیا جارہاہے ۔ عوام پچھلے پانچ دہائیوں سے اس بات پر آنسو بہارہے ہیں کہ ڈل جھیل کو صاف کرنے پر ایک مفایا چلایا جارہاہے ۔ ڈل کی صفائی میں ایک انچ بھی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے ۔ جتنا پیسہ اس کام پر خرچ کیا گیا اس سے کہیں زیادہ ڈل میں آلودگی بڑھ گئی اور اس کا حجم مسلسل سکڑتا جارہاہے ۔ اس دوران اچھ بل ، ویری ناگ ، کوکر ناگ ، ولر جھیل اور دوسرے مقامات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ کوئی ایسا سیاحتی مقام نہیں ہے جہاں ماضی کے برعکس آج سخت بد انتظامی پائی جاتی ہے ۔
کشمیر بھر میں سیاحتی مقامات پر لوگوں کے داخلے کے عوض خاصی رقم وصول کی جاتی ہے ۔ یہ رقم وصول کرنے کے حوالے سے لوگوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ اس سے سیاحتی مقامات کے تحفظ اور انتظام کو یقینی بنانے پر خرچ کیا جائے گا ۔ لیکن ایسا رتی برابر ہوتا نظر نہیں آرہاہے ۔ اس سے ان لوگوں کو بہت زیادہ مالی فائدہ ملتا ہے جو رقم وصول کرنے کے کام سے تعلق رکھتے ہیں ۔ بیشتر سیاحتی مقامات میں داخلہ فیس ان ٹھیکہ داروں سے وصول کی جاتی ہے جو بولی لگاتے وقت موجود ہوتے ہیں ۔ بولی دینے والے یہ لوگ فلوری کلچر یا متعلقہ ڈیولپمنٹ اتھارٹیوں کے جان پہچان کے لوگ ہوتے ہیں ۔ کئی سیاحتی جگہوں پر یہ وصولی کرنے والے لوگ پچھلے ایک دہائی سے برابر موجود ہیں اور کسی دوسرے شخص کو اس کی الاٹمنٹ نہیں کی جاتی ہے ۔ جو لوگ مستقل یہ کام کررہے ہیں وہ یا تو اتھارٹیز کے منظور نظر ہیں یا انہیں باضابطہ منافع کا حصہ دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی تھرڈ پارٹی کو آنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے ۔ ایسے افراد کے کام کاج سے متعلق کسی کو سوال اٹھانے کی اجازت نہیں ہے ۔ اعلیٰ حکام کو اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ ایسے ٹھیکے مخصوص افراد کو ہی کیوں فراہم کئے جاتے ہیں ۔ ایسا کرنا غلط نہ تھا اگر اس ذریعے سے سیاحتی مقامات کا انتظام قابل قبول ہوتا ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے ذریعے ہورہے استحصال کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ اس چھوٹ نے ان کو سیاحتی مقامات کو تباہ کرنے کا موقع دیا ہے ۔ ان لوگوں نے سیاحتی مقامات کو زوال کی آخری حد تک پہنچادیا ہے ۔ یہ کتنی بدنصیبی ہے کہ ایسے مقامات کی تباہی کے آثار بہت پہلے سے محسوس کئے جارہے ہیں ۔ ویری ناگ کے اندر پائی جانے والی آلودگی اور بڑھتی گندگی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس چشمے کے آخری دن گنے جارہے ہیں ۔ یہاں بڑی تعداد میں جو مچھلیاں پائی جاتی تھیں پہلے ہی بہت کم تعداد میں نظر آرہی ہیں ۔ لوگوں کی ان مچھلیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بڑ گئی ہے جس کا ان کی صحت اور زندگی پر اثر پڑرہاہے ۔ اسی طرح کی حالت کوکرناگ کی بھی دکھائی دیتی ہے ۔ کوکر ناگ کا باغ اور چشمہ عنقریب اپنے انجام کو پہنچ جائے گا ۔ چشمہ شاہی کا باغ اور چشمہ دونوں تباہی کے دہانے پر ہیں ۔ گلمرگ تو موت اور مرگ کے نزدیک ہے ۔ سونہ مرگ کی دلکشی ختم ہونے کے قریب ہیں ۔ ان جگہوں پر آنے والے لوگ جلد اکتا جاتے ہیں ۔ سرکار کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر سیاح کشمیر آرہے ہیں ۔ سیاحوں کی آمد ایک حوصلہا فزا بات ہے ۔ لیکن وہ جو تاثر لے کر جارہے ہیں اس بارے میں حکومت سنجیدگی سے کام نہیں لے رہی ہے ۔ ورنہ اب تک درجنوں منصوبے بنائے گئے ہوتے ۔بدقسمتی سے ایسے کوئی منصوبے نہیں بنائے گئے ۔