از:جہاں زیب بٹ
سیکورٹی کے کڑے انتظامات کے تحت جموں و کشمیر میں یوم آزاری کی مناسبت سے متعدد تقریبات کا انعقاد ہوا ۔سب سے بڑی تقریب حسب روایت سرینگر کے بخشی سٹیڈ یم میں مناءی گیی ۔اسی طرح روایت کے مطابق تمام ضلع اور تحصیل ہیڈ کوارٹر وں پر جشن آزادی کی تقریبات کا انعقاد ہوا ۔یہ سلسلہ سکولوں اور کالجوں میں بھی دیکھا گیا ۔علی الصبح اساتذہ اور طلباء اپنے اپنے اسکولوں اور کالجوں میں حاضر تھے۔ان تعلیمی اداروں کو پہلے ہی ترنگا روشنیوں اور جھنڈوں سے دلہن کی طرح سجا یا گیا تھا ۔آج کے دن یہ تعلیمی ادارے قومی نغموں سے گونج اٹھے۔سرکار نے گزشتہ چند برسوں کی طرح امسال بھی جشن آزادی کے حوالے سے تعلیمی اداروں کے لیے مختلف سرگرمیوں پر مشتمل ایک لمبا کیلنڑ ر جاری کردیا تھاجس پر تدریسی عملہ اور طلاب نے بسر وچشم عمل کیا۔”ہر گھر ترنگا “مہم کے تحت ملازمین اور طلاب کو ترنگا کے ساتھ کچھ فو ٹو کھینچنے اور انھیں مخصوص لنکوں پر اپ لوڈ کرنے کا حکم صادر ہوا تھا اس پر بھی بے چوں و چرا عمل ہوا ۔آج کہیں بھی کسی کونے میں پاکستانی یا سیاہ جھنڈا لہرانے کی کوءی اطلاع نہیں ہے۔ آج کسی سیاسی ،نیم سیاسی ،سماجی اور مزہبی لیڈر کو ترنگا اٹھانے یا لہرانے میں دقت ہے نہ بہانہ سازی۔گزشتہ تیس سال کے پر تشددحالات کا جو چشم دید گواہ ہو وہ آج خود کو بالکل ایک نیے ماحول میں سانسیں لیتا ہوا محسوس کرتا ہے۔یوم آزادی تقریبات کا وسیع دایرہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ حکومت اور قانونی اداروں نے اپنی حاکمیت کا لوہا منوایا ہے۔
صرف پانچ سال پہلے صورتحال برعکس تھی۔ پندرہ اگست سر کاری بندشوں اور علاحدگی پسندوں کی ہڑتال کال کی نذر ہوتا۔لڑکوں اور شک آوردہ افراد کے ساتھ ساتھ ناحق بدنام لوگوں تک کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ چلتا ۔ایک روز پہلے ہی انٹر نیٹ سروس بند ہو جاتی اور سڑکوں پر عوامی نقل وحرکت قریب قریب رک جاتی۔لیکن آج ترنگا ریلیاں ہیں۔قو می پرچم کی سلامی ہے۔ ترنگے کے ساتھ سیلفی اٹھا نے کے مناظر ہیں۔ نہ کہیں ہڑتال ،نہ انٹر نیٹ بند اور نہ پہلی جیسی پکڑ دھکڑ۔ زمینی سطح پر رونما ہو ءی اس بڑی تبدیلی کی وجہ بعض تادیبی اقدامات ہیں جو سرکار نے لا قانونیت پر قابو پانے کے لیے اٹھاءے ۔حریت قیادت کی گرفتاری سے منی لا نڈ رنگ معاملات کھولنے اور سوشل میڈیا کو بھارت مخالف حرکات و سکنات کے لیے استعمال کرنے پر قدغن لگانے اور پرانے F I R s کو لے کر نوکری سے برطرف کرنے تک جو سخت تاد یبی کاروائیاں عمل میں لاءی گییں وہ بغاوت کی کمر توڑنے میں بھلے ہی ممد و معاون ثابت ہوءییں لیکن تیس سالہ اعصاب شکن حالات اور پاکستان کی دغل دوستی وہ دیگر عوامل ہیں جنھوں نے کشمیری عوام کو اچھے چال و چلن پر مایل کردیا ۔لوگوں نے آخر کار حریت قیادت کی نااہلیت اور عاقبت نا اندیشی اور اسلام آباد کی چالوں اور منافقانہ کردار کو بھانپ لیا اور وہ بدظن ہو گیے ان جھو ٹے سہاروں سے۔ یوں عقل نے کام کرنا شروع کیا اور جذبات ماند پڑ گیے ۔اب کسی احتجاج ،ہڑتال یا ہند مخالف خیال سے دلچسپی مفقود ہے۔امن کی کھیتی با ڑ ی کے لیے حالات جتنے آج سازگار اور موزون ہیں اتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔ہم نہیں کہہ سکتے کہ جموں و کشمیر میں بے اطمینانی یکسر ختم ہوءی مگر اتنا ضرور ہے کہ بے اطمینانی جو بھی ہے اور جس قسم اور درجے کی بھی ہے کشمیریوں کے نزدیک ا س کا مداوا بھارت اور آءینی حدود کے اندرمضمر ہے۔سوچ کی اس تبدیلی کا مثبت جواب دینا دلی کا فرض بنتا ہے تاکہ یہ خطہ امن کا گہوارہ بن سکے۔