تحریک آزادی میں مسلمانوں کا نمایاں ہاتھ رہا ہے ۔ انگریز جب یہاں آئے تو انہوں نے اقتدار مغلوں سے چھین لیا ۔ مغلیہ سلطنت کو مسلمان اپنی حکومت سمجھتے تھے اس لئے انگریزوں سے ناراض تھے ۔ انگریز بھی مسلمانوں کو اپنا پہلا دشمن سمجھتے تھے ۔ کئی سالوں تک مسلمان اکیلے انگریزوں کے جبر اور ظلم کو سہتے رہے ۔ اس دوران علما کی کوشش رہی کہ اندرونی یا بیرونی مدد سے ہندوستان میں تاج برطانیہ کو ختم کیا جائے ۔ لیکن کامیابی نہ ملی ۔ اس لئے مایوس ہوکر بیٹھ گئے ۔ یہاں تک کہ کانگریس کے جھنڈے تلے انگریزوں کے خلاف ایک منظم تحریک شروع ہوئی ۔ تحریک کا شروع ہونا تھا کہ مسلمان ایک دم متحرک ہوکر کانگریس قیادت کی حمایت میں سامنے آگئے ۔ اس دوران گاندھی کو مسلمانوں کی طرف سے سب سے زیادہ حمایت حاصل رہی ۔ آزادی کی تحریک آگے بڑھتی گئی تو مسلمانوں کا جوش وجذبہ بھی بڑھ گیا اور ہر خاص و عام اس جدوجہد میں شامل ہوگیا ۔ بعد میں جب تحریک آزادی مذہب کے نام پر دو حصوں میں بٹ گئی تو مسلم علما نے اس کا حصہ بننے سے انکار کیا اور چند گنے چنے علما کو چھوڑ کر مجموعی طورعلمائے ہند کانگریس کے ساتھ چمٹے رہے ۔ دیوبند نے کھلے عام دو قومی نظریے کو مسترد کرتے ہوئے اس سے اعلان برات کیا ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ علی گڑھ یونیورسٹی نے جناح کا استقبال کیا اور ان کی پارٹی کی کھل کر حمایت کی ۔ جبکہ علمائے دیوبند نے ان کی جم کر مخالفت کی ۔ یہاں تک کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے ۔ اس طرح کی صورتحال سے مسلمانوں کے درمیان کوئی بڑی خلیج پیدا نہ ہوئی اور ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار نہیں کیا گیا ۔ بلکہ دونوں دھڑوں کے ساتھ مسلمانوں کا مثبت رول رہا ۔ آزادی کے لئے دونوں متفق تھے ۔ البتہ آزادی کے بعد کا سفر طے کرنے کے لئے الگ الگ راستے چن لئے گئے ۔ تاہم یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ آزادی ملنے کے بعد آر یا پار دونوں جگہوں پر ان علما کا رول راتوں رات ختم ہوگیا ۔ جد و جہد آزادی کے دوران علما جس قدر ایکٹیو تھے آزادی ملنے کے بعد یہ اتنا ہی ان ایکٹیو ہوگئے ۔ دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت نے سیکولر آئین اپنانے کا فیصلہ کیا اور کسی بھی مذہبی گروہ یا علما کی مداخلت قبول کرنے سے انکار کیا ۔ سلطنت خدادا دنے آہستہ آہستہ علما سے نجات حاصل کی۔لیکن علمائے دیوبند راتوں رات منظر نامے سے ہٹ گئے ۔ ان علما نے آزادی کے فوراََ بعد دیوبند کی غار میں خود کو بند کیا ۔ جہاں سبز پر چم کے ساتھ بڑی ہنر مندی کے ساتھ کانگریس کا جھنڈا لہراتا رہا ۔ اس کے بجائے کہ ملک کے ترنگے کی عزت کی جاتی وہاں کانگریس قیادت کے پائوں دھونے اور اسی پارٹی کے جھنڈے کو لہرانے میں عاقبت سمجھی گئی ۔ اس طرح سے علمائے دیوبند نے ان ساری قربانیوں پر پانی پھیردیا جو ملک کی آزادی کے لئے دی گئی تھیں ۔ علما نے اسلام اور آزادی سے اپنا منہ پھیر کر کانگریس کو قبلہ بنادیا ۔ تاویل قبلہ کی اس پالیسی نے ہندوستان کے مسلمانوں کے مستقبل پر سخت اثرات ڈالے ۔ کانگریس کا حاشیہ بردار ہونے کی وجہ سے پوری مسلم قوم کو ہی ملک دشمن قرار دیا گیا ۔ پہلے جناح کی قیادت میں اکثریت کے ساتھ چلنے سے انکار کیا گیا بعد میں دیوبند کے اکسانے پر قومی دہارے میں شامل ہونے سے پہلو تہی کی گئی ۔ اس پالیسی سے علمائے دیوبند کی اپنی دال تو گھلی لیکن بحیثیت مجموعی مسلمان تباہ ہوکر رہ گئے ۔ یہاں تک کہ دیوبند نے کانگریس کا جھنڈا اتار تو دیا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوگئی تھی۔ آج حالت یہ ہے کہ آزادی کے 77 سال گزرنے کے بعد ان کا ملک کی تعمیر میں کوئی رول نہیں ۔ آزادی کی جدو جہد کے دوران مسلمانوں کے درجنوں لیڈر گاندھی کے ساتھ کھڑا نظر آتے تھے ۔ آج ایک بھی ایسا لیڈر نہیں جس کو مسلمانوں کا نمائندہ قرار دیا جائے ۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ انتہائی تکلیف دہ معاملہ ہے جس کے لئے یقینی طور علمائے دیوبند کو ذمہ دار مانا جاسکتا ہے ۔ علی گڑھ کے علاحدگی پسند ادارے نے درجنوں ایسے مسلمان رہنما مہیا کئے جنہوں نے سیکولر بھارت کے لئے کام کیا ۔ لیکن دیوبند ایک بھی ایسے عالم کو پیدا نہیں کرسکا جو ملک یا ملک کے مسلمانوں کے لئے کام کرتا ۔ بلکہ ان کی ساری توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ مسلمانان ہند فرقوں میں تقسیم رہیں اور ان کے درمیان کسی بھی صورت میں کوئی اتحاد پیدا نہ ہوجائے ۔ فرقہ پرستی کی جنگ آزادی کی سب سے بڑی نعمت سمجھی گئی اور آج تک دیوبند کی یہی پالیسی ہے ۔ اس کے لئے کئی مفروضے گڑھ لئے گئے اور حسب عادت اسے دشمنوں کی چال قرار دیا گیا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دیوبند نے مسلمانوں کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیا اور وہاں کے علما آج تک اپنی اس پالیسی پر گامزن ہیں ۔
اسلام اور آزادی دو جڑواں بھائی ہیں جنہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے ورنہ دونوں کی موت واقع ہوجائے گی ۔ علمائے اسلام نے ہر جگہ آزادی کی تحریک چلانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے ۔ ہندوستان کی آزادی میں ان کا نمایاں رول رہاہے ۔ آزادی ملی تو اس سے منہ موڑ لیا گیا ۔ پوری قوم سے خود کو علاحدہ کیا گیا اور آزادی کی نعمتوں سے کوئی فائدہ اٹھانے سے انکار کیا گیا ۔ اس کی وجوہات تلاش کرنا مشکل ہے ۔ علما کے لئے گاندھی کی قیادت میں شامل ہونا جائزہ تو تھا لیکن ان کی سرکار سے اپنے سوا کسی کا فائدہ اٹھانا حرام بن گیا ۔ راتوں رات یہ پالیسی چینج عجیب بات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے آزادی کی صبح آج تک نمودار نہیں ہورہی اور یہ ابھی تک تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔