تحریر:ش،م ،احمد
نگاہ بلندسخن دل نواز جاں پُرسوز
یہی ہے رخت ِ سفر میر کارواں کے لئے
عالمی شہرت یافتہ عالم ِدین مولا نا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی دامت برکاتہم گزشتہ ہفتے شمالی کشمیر کے مختصر تبلیغی دورے پر وادی ٔ کشمیر تشریف فرما ہوئے۔یہاں اُن کی مبارک آمد موجودہ مذہبی فضا میں ایسے ہی محسوس کی گئی جیسے شدیدگرمیوں میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہواکے خوشگوار جھونکے آرام وسکون کا پیغام دیتے ہیں۔ مولانا نعمانی صاحب نے بٹنگو سوپور کشمیر کے ایک دارالعلوم موسوم بہ جامعہ اسلامیہ ریاض الجنتہ کی دعوت پر ناسازطبیعت اور بے انتہا دینی تبلیغی اور ملی مصروفیات کو موخر کر کے یہاں چندروزہ قیام فرمایا ۔ اپنی مختلف مجالس ِ درس میں نعمانی صاحب نے ہمارے اخلاقی زوال پذیری کا حکیمانہ جائزہ لیا ‘ ملت اسلامیہ کے حوالے سےحالات حاضرہ پر اُمید افزا تبصرے کئے‘ رجوع الی اللہ ‘ توکل علی اللہ ‘ اصلاح وتزکیہ کی دعوت کے مکرر اعلانات کئے دین ِاسلام کے روشن مستقبل کی خوش خبریاں سنائیں اور خاص طور اپنی نم دیدہ دعاؤں سے جابجا ان مجالس میںایمان وایقان کی جوت جگائی۔
ا س میں دورائے نہیں کہ کشمیر میں ماشا اللہ’ ’مسلمانوں‘‘ کی کثرت آباد ہے ‘ ِ یہاں مساجد کا جال بھی بچھا ہواہے‘ یہاں بلا ناغہ پنچ وقتہ اذانیں اور نمازیں ہورہی ہیں ‘ یہاں مرجع خلائق درگاہیں اورپُر رونق بقعہ جات کے توسل سے روحانیت کا فیضان بٹ رہا ہے‘ ِیہا ں مسالک ومشارب سے منسوب مدارس کی بھرمار ہے ‘ یہاں یتیم خانے‘ بیت المال اور مذہبی انجمنیں اور این جی اوزقطار اندر قطار پائی جاتی ہیں۔یہ سب چیزیں الحمد للہ ہماری’’ مسلمانانہ شناخت‘‘ کا تاثر ذہنوں پر قائم تو کر تی ہیں ‘ پھر بھی ہم ان تیکھے سوالوں سے اپنی گردن نہیں چھڑا سکتے کہ کیا حقیقی طور دین ہمارے گلے کے نیچے اتر چکا ہے؟ کیا ہم بالفعل اسلامی اقدار‘ عقائد ‘ افکار اور نیک عملی کے روح پرور نصب العین پر کاربند ہیں ؟ کیا ہم میں وحدت ِ فکر پائی جاتی ہے یا ہم محض ایک منتشر ذہن ہجوم اور بلا قبلہ جتھا بنے بھٹک رہے ہیں ؟ کیا ہم مذہب کے نام پر چھلکوں میں اُلجھے ہیں اور دین کے اصل مغز سے کو سوں سے دور ہیں ؟ مولانا نعمانی صاحب نے اپنی اصلاحی تقاریر میں انہی اساسی سوالوں کے جواب میں بیک وقت کئی ایک دُکھتی رگوں پر انگلی رکھ لی اوراپنے عالمانہ ارشادات سے ہمارے قلب وذہن اور ضمیرکو منصفی کا کام سونپ دیا ۔ اپنے موثر اور چشم کشا پندو نصائح سے آپ نے مدلل و مفصل انداز میں سمجھایاکہ ہم میں کیا کمیاں اور کون سی خامیاں پائی جاتی ہیں ۔ کہنے کو ہم لوگ اولیا اللہ اور بزرگان ِ دین کی اَنتھک محنتوں اور بے ریا کاوشوں سے سینچے گئے کشمیرجیسے چہکتے مہکتے گلستان میں رہ بس رہے ہیں مگر معاف کریں فی الوقت بہ حیثیت مجموعی ہم اُس مسلمانیت سے دور ہیں جو قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی بتلائی سکھلائی ہوئی ہے۔ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ جب کشمیر ی مسلمان ملک بھر میں سودخوری اور سودی لین دین میں سر فہرست ہوں، خدا فراموشیوں میں آگے آگے ہوں‘ سودپر بنے بنگلوں اور محلات سے ظاہر بین نظروں کو خوشحالی اور ترقی کا جھوٹا تاثر دئے جارہے ہوں‘ خدیجہ اور عائشہ جیسے عظیم ِ نام رکھنے والی مسلم بیٹیاں اخلاق وادب سے عاری مشاغل میں مصرف ہوں ‘ جوا ںنسل منشیات کے دلل میں دھنستی جارہی ہو‘ جہیزی کاروبار اور نمود نمائش والی خرچیلی شادیاں اور فضولیات ورسومات ِ بد کا دور دورہ کر نے میں ملوث ہوں‘ انٹی کرپشن بیورو اور پولیس کرائم برانچ کےمسلسل چھاپوں اور پکڑ دھکڑ کے باوجود ہمارےیہاں بدعنوانیاں ختم ہونے کا نام نہ لے رہی ہوں‘تو ہمارے مسلمانانہ تشخص کے جھوٹےدعوؤں کا مطلب کیا ؟ ہماری یہ انفرادی واجتماعی گناہ گاریاںایمان کو غارت کرنے والی اور اللہ کے غضب وقہرکو دعوت دینے والی ہیں ۔ان کے بُرےنتائج پر غور وفکر کیجئے تو کلیجہ ہاتھ میں آئے گا۔
مولانا نعمانی نے ہمارے انفردای اور اجتماعی وجود کا قرآنی لیبا رٹری میں بھر پور ایکسرے کیا اور پھرایک ماہر جراح کی مانند ہماری مذہبی اورسما جی زندگیوںکو لاحق تمام بیماریوں کا بکھیڑا ہماری نگاہوں کے سامنےرکھ دیا تاکہ ہمارے خفتہ ضمیر بیدا ہوجائیں اور ہم مزید اخلاقی زوال کی کھائیوں میںلڑھک کر دین وایمان سے ہی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ ایک جہاں دیدہ ‘ کشادہ ذہن اور حقیقت پسند عالم ِرُبانی کی زبانی ہمارے بارے میں یہ بے لاگ نقد وبصر اور احتساب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس محاسبے سے اگر ہم شعوراً جاگ گئے توہم اپنے اندر چھپے عبوب ‘ گناہ اور جرائم کے خلاف ڈھال بنے اپنا بچاؤ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں‘ بصورت دیگر ایمان مخالف کام کرکرکے نہ صرف ہم آخرت کی عدالت میں مستوجب ِ سزا قرار پائیں گے بلکہ دنیا میں بھی سر اٹھا کر جینے کے فن اور ہنر سے کبھی آشنا نہیں ہوسکتے۔ بدقسمتی سے ہمارے زیادہ تر علما اور ائمہ کشمیر کی مسلم کمیونٹی کو لگے ان مہلک روگوں کا ذکر دینی مجالس میں
کر نے کی جسارت نہیں کر پاتے ‘مباد ا مسجد کامتولی‘ مقتدی اور سامعین مبنی برحق تنقیدیں سن کر اُن سےناراض ہوجائیں کہ نذر ونیاز بند ہواور مشاہرے پرآنچ آئے‘ لیکن مولانا نعمانی صاحب کسی اور ہی مٹی کے بنے ہوئے ہیں آپ‘جرأت گفتا کا جوہر بدرجہ ٔ اتم فطرت کے خزانے سےپائے ہوئے ہیں‘ منہ پر کھری کھری سنانے میں اپنی مثال آپ ہیں ‘ ہم نواؤں اور مخالفین میںحق بات کہنے سے نہیں کتراتے چاہے کوئی ناک بھوئیں چڑھائے ‘کوئی واہ مرحبا کہیں۔ یہی ایک عالم ِ رُبانی کی شانِ بے نیازی ہوتی ہے کہ وہ سچائی اور دیانت کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ کرتاہے نہ حق بات کہنے میں کسی پس وپیش یا ذہنی تحفظ کا شکار ہوتا ہے ۔ مولانا صاحب نے بر سر منبر ہم کشمیری مسلمانوں کے کردار کا کچا چھٹا ہمارےسامنے رکھنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ قرآن وسنت کی روشنی میں ہماری کامل شفایابی کا نسخہ ٔ کیمیا بھی پوری دل سوزی کے ساتھ تجویز کیا۔ آپ کی زبانی اخلاقی بگاڑ کے سمندر میں غوطہ زن خاص وعام لوگوں پر تنقیدی چوٹوں میں وہ گنے چنے ڈاکٹربھی آہی گئے جواپنے پیشے کے منافی مفاد پرستانہ صنم خانے کے پجاری بنے ہوئے ہیں ۔ آپ نے ناصحاانہ انداز میں مال ومتاع کے گرویدہ مخصوص مزاج والے ان ڈاکٹروں کوانسانیت نوازپیغام دیا کہ اپنی آخرت بچانے کی فکر کریں ‘ علاج ومعالجہ کر تے وقت محض مال پانی کے لئے مریضوں کو غیر ضروری ٹیسٹوں اور ادویات کاگورکھ دھندہ اپنا نے سے باز رہیں‘ بیماروں سے نرمی سے بات کریں کہ اس سے اُن کی نصف سے زیادہ تکلیف برسر موقع دور ہوجاتی ہے۔ بہر صورت یہاں اس ٹھوس حقیقت کا اعتراف نہ کرناجرم عظیم ہوگا کہ موجود اَندھ کاری دور میں بھی یہاںایسے مسیحا صفت اور باضمیر ڈاکٹر ضرورموجود ہیں جو اپنے پیشے کے تقدس سے کماحقہ واقف ہیں ‘ جومریض دوست ہیں ‘ جواپنے دین وایمان کی نگہداشت کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ‘ جن کی بے لوث خدمات سے ابھی تک ہمارے ہیلتھ سیکٹر کی صحت مندی اور شفایابی برقرار ہے ۔ اس بے عیب سچ کا معترف ہونا بھی ہم پر لازم آتا ہے کہ خرابی ٔ بسیار کے باوجود یہاں ایسےزندہ ضمیر تاجر‘ دیانت وامانت کے پیکر اعلیٰ سرکاری عہدیدا ر‘ فرض شناس اساتذہ ‘ خدمت ِخلق میں یکتا پولیس افسروں کے بشمول وسطی درجے کے قابل ولائق سرکاری ملازمین جوق درجوق موجود ہیں جن پر آج بھی’’ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‘‘ کا مصرعہ صادق آتا ہے ۔ میرے ناقص خیال میں انہی لوگوں کے حُسن ِ کردار سے کشمیر میں چاند اور سورج روز آسمانِ دنیا پر طلوع ہوتے ہیں ۔
محترم نعمانی صاحب نےایک مسیحا صفت طبیب کے طور بغیر کسی لاگ لپٹی کے ہمیں کھری کھری سنائی ‘ مقصد یہ تھا کہ ہم اپنی غلط کاریوں پر ندامت وشرمندگی محسوس کرسکیں ‘ ہمیںاصلاحِ احوال کی تر غیب مل سکے ‘ ہم دنیا جہاں سے دوبارہ چرب دست وتردماغ قوم ہونے کا فخریہ تمغہ حاصل کرسکیں‘ ہم جد ید دنیا سے اپنی خدادا د قابلیتوں‘ صلاحیتوں اوراچھائیوں کا لوہا منواسکیں۔
افسوس کہ اول دینی علوم ومعارف سے ہماری دوری کے نتیجے میں یہاں مدرسے ‘کرتے پاجامے‘ٹوپی ‘ داڑھی اور لبا س کی مخصوص تراش خراش کو اسلام سمجھا گیا ‘ دوئم عرصۂ دراز سے مسلمانوں میں مسلکی انتشار بڑھانے اور منافرتوں کا جہنم دہکانے والے بعض ناعاقبت اندیش مقررین منبر ومحراب سے ایک دوسرے کے خلاف ایسے ایسے فتوے بازیاں کر رہے ہیں جن سے للہیت ‘اُخوت‘ خلوصِ نیت اور بلندی ٔ کردار کی جگہ تفرقات اور خلفشار کو فروغ مل رہاہے۔ مولانا سجاد صاحب نے اپنی دینی مجالس میں شرین و اثر آفرین لب ولہجہ میں اسلام کا حقیقی تعارف کرایا تو پتہ چلا کہ منبر ومحراب سے لوگوں کو بے اصل چیزوں کے لئے لڑنے جھگڑنے کے لئے مشتعل نہیں کیا جاناچاہیے بلکہ انہیں منبر ومحراب سے یہ تعلیم ملنی چاہیے کہ انسانیت میں ڈوبی اسلامی زندگی کس طرح گزاری جاتی ہے ، دنیا کی چند روزہ زندگی میں مومن کے شب وروز کی فکر کا مرکز اور دلچسپیوں کا محور کیسے حق وانصاف کے گرد گھمایا جاتا ہے‘ منبر ومحراب سے یہ درس ملنا چاہیے کہ مومن کس ایمانی فہم و فراست کے ساتھ بلا تفریق رنگ ونسل اور بغیر کسی مذہبی ومسلکی بھید بھاؤ کے طبعاًانسانیت کے تئیںپُر خلوص اور محبت والا واقع ہوتا ہے ‘وہ اپنوں اور پرائیوں سے خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے ‘ اُسےاللہ کی جوابدہی کا احساس ہمہ وقت ہر دوسرے انسان کارفیق وشفیق بناتا پھرتا ہے ‘ اس کے ہاتھ اور زبان سے نسل انسانی ہی نہیں بلکہ جانور تک اذیتوں اور تکالیف سے محفوظ رہتےہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ منبر ومحراب سے ایسے ہی کامل مومنوں کی اٹھان ہوئی تو دنیا قطعی طور پر مسلمانوں کو دھرتی کابوجھ نہیں سمجھا جائےگابلکہ اُنہیںزمین کا گہنا اور انسانیت کے ماتھے کا جھومر تسلیم کرنے میں دنیا جہاںکوئی لیت ولعل نہیں کرے گی ۔
مولانا صاحب نے اپنے وعظ وتبلیغ میں انہی بنیادی نکات کواُبھار کر دل سے دعائیں کیں کہ ہر کشمیری اسی طرح کا مومن ومسلم بننے کی سعادت پائے جس کی تعلیم وتدریس میں حضرت شاہ ہمدان علیہ رحمہ نے اپنی عمرشریف اور اپنی غیر معمولی ایمانی ومادی صلاحیتیں کھپا دی تھیں یا کشمیر کے دوسرے اولیائے کاملین ڑحہم اللہ نے روحانی طور زرخیزاس سرزمین کو اسلامی عقائد اور اخلاقیات کی کا شت کے لئے بےحد وحساب محنتوں ‘عبادتوں ‘ ریاضتوں اور دعا ؤںکا گلشن بنایا تھا۔
یہ سطور آپ تک پہنچے سے قبل ہی مولانائے محترم واپس وطن مالوف تشریف لے گئے ہوں گے۔ البتہ اپنے پیچھے آپ نے ایمان افروز بیانات ‘ چشم کشا پیغامات اور بصائرقرآنی کے تمغہ جا ت کی شکل میں جو انمول تحفے تحائف ہم کشمیری مسلمانوں کے لئے چھوڑ دئے ‘ اگر ہمارے سنجیدہ فکر و صالح مزاج علما ‘ خطیب ِ ‘داعیان ِ دین‘ اہل ِدانش اور عام مخلص مسلمان انہیںزندگی کے رہنما اصول مان کر ان پر عمل پیرا رہیں تو زندگیاں بدلنے والے یہ مواعظ حسنہ ٔ کشمیر کے لئے نیک فال ثابت ہوںگے۔ اس وقت حضرت والا کے پُر مغز بیانات کی خوشبوئیں سوشل میڈیا کی وساطت سے چاروں اطراف پھیل رہی ہیں ۔ان سے علمی ‘مذہبی اور دعوتی حلقوں کو کشمیری مسلمانوں کو حقیقی اسلام کا نمائندہ معاشرہ بنانے میںمہمیز مل سکتی ہے‘نیز ارضِ ِ کشمیر ایک پُر امن ‘ صالح اوردین والوں کی جنت کا روپ دھارن کر سکتی ہے ‘ اس کی تمام مشکلات کا فور ہوسکتی ہیں ، اس کے اپنے ہاتھوں پیدا کردہ مصائب اور محرومیاں ختم ہوسکتی ہیں ۔مولا نا صاحب کی مصلحانہ تقاریر اور نصیحت آموز بیانات کی روشنی میں یہاں کے علمائے حق کو آگے آنے کی اشد ضرورت ہے ۔ البتہ دینی محاذ پر اپنے مواعظ کے روحانی اثرات کی کھیتی کو لہلہاتی رکھنے کے لئے خود مولانا محترم کو بھی مستقبل میں بھی کئی بار یہاں آنے کی زحمت گوارا کر نا ہوگی تاکہ شاہراہ ِ اسلام پر واپس موڑنے کے لئے ہم ان کی اُنگلی پکڑ کر آگے کا لمباسفر طے کرسکیں ۔
صاحب ِ ’’ معارف الحدیث ‘‘ جیسی معرکتہ الآرا کتاب کے مایہ ناز مصنف اور برصغیر کے ممتازعلمی جریدہ ماہنامہ ’’ معارف ‘‘ کے رئیس التحریر مولانا منظور احمدنعمانی علیہ رحمہ کے خلف ِ رشید جنا ب سجاد نعمانی نےاہل کشمیر کے واسطے اپنے دل کے تہ خانے میں علم و فکر اوراشک باردعاؤں کے چنیدہ موتی چھپا کر لائے تھے ‘ جہاں جہاں اُنہیں عوام یا خواص سے مخاطب ہونے کا موقع ملا‘ دل کھول کر ان تحائف کی داد ودہش سے ہر ایک کا دل موہ لیا‘ اذہان کے زنگ آلودہ قفل توڑ دئے ‘ سامعین کو زندگی میں دولت ِایمان کی کلیدی اہمیت کا احساس دلایا ‘ فکر کی بندشیں کھو ل دیں ‘اسلام کے پیغامِ اُمید سے پژمردہ قلوب میں ایمانی حرارت وحرکت بھردی اور واشگاف الفاظ میں یہ حق بیانی کہ اسلام نہ ٹوپی‘ عمامے‘ تسبیح کی تنگائیوں میں مقید ہوکر جینےکا نام ہے ‘نہ مشرب ومسلک اور مدرسے کی چار دیواروں میں نمائشی گزر بسر کاطریقِ عمل ہے بلکہ یہ انسانیت کا عملی نمونہ بننے ‘ اخلاق کا بول بالا کر نے‘ انسانی تقسیم کاریوں سے اُوپر اٹھ کر عوام الناس کی ہمہ پہلو خیر خواہی اور بے لوث خدمت گزاری میں مست ومگن ہونے کا خدائی اُصول اور رسالت مآب ﷺ کا مقرر کردہ اسلوبِ کار ہے۔ اسی دستورالعمل کی اتباع میں ہمارے لئےدنیا کی فتح وکامرانی کاراز چھپا ہو اہے بشرطیکہ ہم میر کارواں کےان بصیرت افروز فرمودات پر عمل پیرا ہونے کی نیت سے اپنی کمر ِ ہمت آج بلکہ ابھی سےباندھنا شروع کریں۔