جہاں زیب بٹ
کس قدر افسوسناک بات ہے کہ گگن گیر گاندربل کی پرامن سرزمین کو بھی نہیں بخشا گیا اور اسے معصوم خون میں نہلایا گیا ۔اس خونین رقص میں ایک کشمیری ڈاکٹر شہنواز کے علاوہ چھ غیر ریاستی مزدورں کو موت کے گھاٹ اتاراگیا ۔سرکاری ذرایع کے مطابق ان سویلین ہلاکتوں میں مبینہ دہشت گردوں کا ہاتھ ہے ۔میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا کہ TRF نامی دہشت گرد تنظیم نے ہلاکتوں کی ذ مہ داری قبول کی ہے۔۔بعض میڈیا رپورٹوں میں یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس علاقے میں ہریرہ اور حبیب نامی دوملی ٹینٹ سرگرم ہیں اور تازہ ہلاکتوں میں ان کا ہاتھ ہو نے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
ہوم منسٹر امت شاہ سے لیکر ریاستی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ تک تمام حکومتی عہدیداروں اور اہم سیاسی لیڈروں نے گگن گیر سانحہ کی پر زور مذمت کی ہے۔ سیکورٹی فورسز کو الرٹ کیا گیا ہے اور این آیی اے بھی تحقیقات کے لیے میدان میں آچکی ہے۔قانونی اور تادیبی کارروایی سے باہر گگن گیر قتل عام کا انسانی پہلو ہے ۔ڈاکٹر شہنواز اور غریب مزدور جرم بے گناہی میں مارے گیے جو ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ انسانیت جہاں زندہ ہے انسان جو بھی رحمدل ہے وہ لرز اٹھا اور اس پر کپکپی طاری ہو یی ،ہر آنکھ نمناک ہے اور ہر چہرہ اترا ہو ا۔
گگن گیر میں رونما ہو یی دہشت گردانہ کارروایی پہلی ہے اور نہ آخری ۔کشمیر نوے سے دہشت گردانہ آگ کی لپیٹ میں ہے اور اب تک ہزاروں بے گناہ لوگ اس کا نشانہ بن چکے ہیں۔اول اول تو مقامی آبادی نے مقدس جنگ کے نام پر ملی ٹینٹوں کی حمایت کی ، ان کو پناہ دی ،پالا پوسا ،،ہیرو بنایا اور معصوم عن الخطا سمجھا ۔لیکن جوں جوں جہلم سے پانی بہتا گیا کشمیریوں پر حقیقت کھلنی شروع ہو گیی۔ان کو سمجھ آیا کہ وہ ایک بے مقصد جنگ کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔ان کو پراکسی وار میں گھسیٹا جا رہا ہے۔پھر آیے روز کی سلسلہ وار سویلین ہلاکتوں سے کشمیری کمر ٹوٹ گیی ،نت نیے سانحات ناقابل برداشت بن گیے اور اہلیان کشمیر کی سوچ میں واضح تبدیلی آیی اور وہ جنگ وجدل سے چھٹکارا دلانے کی سرکاری کوششوں کی سراہنا کر نے لگے اور اس میں ہاتھ بٹا نے لگے ۔اب ملی ٹینسی کے بارے کشمیریوں کا ذاویہ یکسر بدل گیا ہے۔ آبادی کے ایک ٹکڑے کو آج بھی ملی ٹینسی کے تئیں نرم گوشہ ہو تو ہو لیکن سچایی یہ ہے کہ جنگ کی ان گنت پریشانیوں کا مزہ چکھنے اور سویلین ہلاکتوں سے نفسیاتی طور پر ٹو ٹ پھو ٹ کا شکا رہو نے کے بعد کشمیر کی بیشتر آبادی ملی ٹینسی سے لاتعلق اور اظہار برات کررہی ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ملی ٹینسی مقامی سطح پر اخلاقی حمایت کھوچکی ہےاور مقامی آکسیجن لاین کافی حد تک کٹ چکی ہے۔ اس کے باوجود جو طاقتیں ملی ٹینسی کو زندہ رکھنے پر تلی ہو یی ہیں ان کے پاس دہشت گردانہ کارروائیوں کے سوا اور کویی راستہ نہیں بچا ہے جس سے بہر حال ان کو کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔دہشت گردی کو آبادی کا سپورٹ نہ ملے تو وہ ماہی بے آب ہے۔
غور طلب بات یہ ہے گگن گیر سانحہ اس وقت رونما ہو ا جب عمر عبداللہ کی قیادت میں دس سال بعد جمہوری حکومت قایم ہوگیی ہےاور امن کو تقویت ملنے کی امید کی جارہی ہے۔اندازہ یہی ہے کہ امن دشمن طاقتیں دہشت کے ذریعے کشمیریوں کو نفسیاتی خوف میں مبتلا کر نے کا کا رڈ کھیل رہی ہیں تاکہ انکو مرعوب اور مفتوح کیا جا سکے۔ لیکن تیس سالہ حالات و تجربات نے کشمیری کا دل اس حد تک تو ڑ ڈالا ہے کہ وہ دباو اور دہشت کے ہتھکنڈوں سے پراکسی وار کا کردار بننے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا ۔دیوار پر لکھی یہ عبارت کسی کو سمجھ نہ آیے تو کشمیری کا کیا قصور؟
