سونمرگ کے علاقے میں اس وقت سنسنی پھیل گئی جب یہاں نزدیکی بستی گگن گیر میں تعمیراتی پروجیکٹ پر کام کرنے والے کارکنوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی ۔ یہاں زیڈ موڑ ٹنل بنانے کا کام جاری ہے ۔ اس ٹنل سے لداخ کے لئے جانے والی شاہ راہ سال بھر کھلا رہنے کا امکان ہے ۔ یہ راستہ برف بھاری کی وجہ سے سال کے کئی مہینوں کے لئے بند رہتا ہے جس سے عوام اور علاقے میں تعینات سیکورٹی فورسز کا باقی دنیا سے زمینی رابطہ منقطع ہوجاتا ہے ۔ خطے کے عوام کی سہولت اور سیکورٹی کے حوالے اس شاہ راہ کوبڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اتوار کو یہاں کام کرنے والے کارکنوں پر مسلحہ افراد نے حملہ کیا ۔ حملے میں ایک درجن کے قریب کارکن زخمی ہوگئے ۔ زخمیوں کو مقامی ہسپتال پہنچایا گیا جہاں عملے نے ایک ڈاکٹر کے علاوہ چھ دوسرے افراد کو مردہ قرار دیااور باقی زخمیوں کو سرینگر علاج معالجے کے لئے روانہ کیاگیا ۔ حملے کی زد میں آنے والے زیادہ ترشہری غیر مقامی ہیں ۔ اس واقعے پر سیاسی اور سماجی حلقوں نے سخت دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ۔ وزیراعظم نے اپنے پیغام میں اسے افسوسناک واقع قرار دیا ۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا عندیہ دیا ۔ ٹرانسپورٹ کے مرکزی وزیر نیتن گذ کری نے ٹنل کے کام میں مصروف کارکنوں کی ہلاکت پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک افسوسناک واقعہ قرار دیا ۔ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنے بیان میں اسے بزدلانہ حرکت قرار دیا اور اسے ایک سازش سے تعبیر کیا ۔جموں کشمیر بی جے پی کی طرف سے اس واقعے پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا گیا ۔ پی ڈی پی اور اپنی پارٹی کی طرف سے واقعے کو کشمیر دشمن کاروائی قرار دیا گیا ۔ ایل جی منوج سنہا نے واقعے پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے یقین دلایا کہ ملوث افراد کو ہر صورت میں اپنے انجام کو پہنچایا جائے گا ۔ پولیس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ لشکر طیبہ کے مقامی گروپ TRF نے گگن گیر میں کی گئی کاروائی کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ
حملہ آور جائے واردات پر ایک رائفل چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ حادثے میں ملوث جنگجووں کو تلاش کرنے کی کاروائی شروع کی گئی ہے اور بہت جلد ان کو ختم کیا جائے گا ۔
جموں کشمیر میں عوامی سرکار بننے کے بعد گگن گیر میں پیش آیا واقعہ سافٹ ٹارگٹ کلنگ کا دوسرا واقعہ ہے ۔ اس سے پہلے شوپیان میں ایک غیر مقامی مزدور پر گولی چلاکر اسے ہلاک کیا گیا ۔ اب زیڈ مہر ٹنل پر کام کررہے کارکنوں کو ہلاک کیا گیا ۔ گگن گیر میں اس طرح کا واقعہ پیش آنا نہ صرف تکلیف دہ ہے ۔ بلکہ حیران کن بھی ۔ پورے علاقے کو دس پندرہ سالوں سے انتہائی پر امن علاقہ قرار دیا جارہاہے ۔ اس دوران یہاں کبھی بھی ملی ٹنٹوں کی موجودگی کی کوئی خبر نہیں ملی ۔ یہ علاقہ انتہائی حساس ہونے کے ساتھ سیاحتی لحاظ سے بڑا اہم مانا جاتا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کارگل اور سیاچن تک سیکورٹی فورسز کے لئے کھانے پینے کا سامان اور دوسرا اسلحہ اسی راستے سے منتقل ہوتا ہے ۔ اس راستے پر چوبیس گھنٹے حفاظتی دستے تعینات رہتے ہیں ۔ اس کے باوجود ملی ٹنٹوں نے علاقے میں آکر کاروائی انجام دی ۔ یاد رہے کہ یہ علاقہ گاندربل انتخابی حلقے میں شامل ہے جہاں سے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہوئے ۔ علاقے کے لوگوں نے انتخابات میں حصہ لے کر جمہوری عمل کا ساتھ دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ گگن گیر میں ہوئی کاروائی کو سیکورٹی تناظر میں دیکھنے کے علاوہ امن و امان کو تتر بتر کرنے کے واقعے کے طور بھی لیا جاتا ہے ۔مسجدوں اور تعمیراتی کاموں کی جگہوں پر ایسی کاروائیاں صرف پاکستان میں بلوچستان کے ان علاقوں میں کی جاتی ہیں جہاں چینی کارکن تعمیراتی کام انجام دیتے ہیں ۔ یہاں چینی انجینروں کو ہلاک کرنے کے کئی واقعات پیش آئے ۔ کشمیر میں اس سے پہلی کسی تعمیراتی کمپنی کے کارکنوں کو کبھی بھی ٹارگٹ نہیں بنایا گیا ۔ بلکہ عوام ایسے کام کرنے والوں کو پسند کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ کشمیر میں نجی اراضی میں زمینداری کا بیشتر کام بہاری اور بنگالی مزدور کرتے ہیں ۔ ان مزدوروں کی کشمیر آمد کو بہت ہی اہم سمجھا جاتا ہے ۔ ان کی آمد سے یہاں کے کاروبار کو کافی سہارا ملا ہے ۔ ایسے مزدور یہاں نہ آئیں تو اندازہ ہے کہ شالی کے کام کے علاوہ باغوں میں کوئی کام انجام دینا ممکن نہیں رہے گا ۔ اس کے علاوہ تعمیراتی کاموں میں بھی غیر مقامی مزدوروں اور مستریوں کو رکھا جاتا ہے ۔ ان کی وجہ سے مزدوروں کو ملنے والی روزانہ ریٹ کو بھی قابو میں رکھنا ممکن ہوا ۔ یہ مزدور مقامی مزدوروں کی نسبت کام خوش اسلوبی سے کرتے ہیں ۔ دوسرا دیہاڑی بھی معقول وصول کرتے ہیں ۔ مقامی لوگ ان غیر مقامی مزدوروں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اور سخت سے سخت کام انجام دینے کے لئے ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ۔ اس حوالے بہاری اور بنگالی مزدوروں کی کشمیر آمد کو بہت ہی اہم سمجھا جاتا ہے ۔ ایسے مزدوروں کی ہلاکت کو عوامی حلقوں میں بھی بہت ہی افسوسناک قرار دیا جاتا ہے ۔