از:جہاں زیب بٹ
میرواعظ عمر فاروق نے طویل خانہ نظر بندی سے رہایی کے بعد رسمی طور کچھ بیان بازی تو کی لیکن کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی خاتمے کے ضمن میں عوام کے سامنے کو یی لایحہ عمل پیش نہیں کیا۔میر واعظ جب رہایی کے بعد جامع مسجد کے منبر پر کھڑے ہوگیے تو وہ زارو قطار رویے جس سے کچھ حلقوں نے اخذ کرنا شروع کیا کہ وہ آیندہ سیاسی اکھاڑہ باذی سے احتراز کریں گے۔ان کے مداحوں کا ایک طبقہ اس پر خوش نظر آیا کہ ان کا کہنا ہے کہ میرواعظ سیاسی
کو چے کی طرف نہ جاییں تو بہتر اور افضل۔ان کے لیے مذہبی پیشوا یی کا منصب کافی ہے ۔وہ وعظ و تبلیغ اور تعلیم وتربیت کے ذریعے دلوں کو منور کریں تو یہ بڑی سماجی خدمت ہے ۔ان کے نزدیک جامع مسجد کے منبر کی ذمہ داریاں کیا کم ہیں کہ وہ باقیوں کی طرح سیاسی طلسم بازی کے لیے مجبور ہوں۔لیکن میرواعظ کے یہی مدح سرا میرواعظ کے کچھ حالیہ بیانات کا حوالہ دے کر آج یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ سیاست زبردست نشہ ہے چسکا ہےجو ایک بار کسی کو لگ جایے تو چھو ٹتا نہیں ہے۔
میر واعظ نے خانہ نظر بندی کے رہایی کے بعد حریت پلیٹ فارم نہیں سنبھالا تو بہت سے مداحوں نے دل ہی دل میں کہا الحمد للّٰہ لیکن الیکشن میں این سی کی شاندار جیت ہویی تو میرواعظ صاحب نے اسے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ فیصلوں کے خلاف عوامی فیصلہ قرار دیا ۔مبصرین نے اس بیان کو جہاں مقامی خیا ل کی ہم آہنگی سے تعبیر کیا وہیں یہ عمر عبداللہ حکومت کے تییں میرواعظ کی نرم گوشی کا غماز سمجھا گیا ۔
نیی حکومت کے قیام کے بعد پچھلے ہفتے اہم واقعہ یہ رونما ہوا کہ میرواعظ عمر فاروق کے دولت خانے پر ان کی سربراہی والی حریت سے وابستہ چوٹی کے لیڈر پروفیسر عبدالغنی بٹ،بلال غنی لون اور مسرور عباس انصاری پانچ سال بعد حاضر ہو یے ۔ یہ محض علیک سلیک اور ایک دوسرے کا حال چال پو چھنے پر مبنی ملاقات نہ تھی بلکہ یہ پانچ سال بعد حریت کی پہلی میٹنگ تھی جس کا اشارہ میر واعظ نے دو روز بعد ہی دیا جب انہوں نے جمعہ خطبے میں اس میٹنگ کا تذکرہ کیااورحریت کا نفرنس کا یوم تاسیس سے ہی مذاکرات کا حامی ہو نے کا دعویٰ کر تے ہو یے ڈایلاگ کی زور دار وکالت کی۔انھوں نے حالیہ پرتشدد اور خون آشام کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہویے ان کی مذمت کی اور پرایم منسٹر مودی کے روس میں منعقد برکس اجلاس میں دیے گیےاس بیان کی سراہنا کی جس میں انھوں نے کہا ہےکہ جنگ کے بجائے ڈایلاگ اور ڈپلومیسی تنازعا ت کا حل نکا لنے کا راستہ ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ پرایم منسٹر مودی نے مذاکرات کا مشورہ روس یوکرین جنگ کے پس منظر میں دیا ہو گا لیکن میرواعظ صاحب نے”دل کے ہہلانے کو غالب! یہ خیال اچھا ہے ” کے مصداق پرایم منسٹر کے مذکورہ بیان کو سیاق و سباق سے باہر پکڑتے ہو تے ہو یے کہا کہ ان کی قیادت والی حریت نے ماضی میں واجپایی جی اور منموہن جی کے ساتھ مذاکرات کیے اور وہ دلی کی موجودہ حکومت سے ڈایلاگ میں کویی حرج محسوس نہیں کرے گی ۔
میرواعظ کی حریت کا نیے سرے سے اچانک ظہور کی ضرورت اور اہمیت کا پتہ تو آگے چلے گا ؟اس کی ڈایلاگ پیشکش پر دلی ردعمل ظاہر کر نے کی ضرورت محسوس کریے گی یا نہیں اس حوالے سے بھی انتظار کے سوا اور کویی چارہ نہیں. لیکن فی الحال کے طور پر سوال یہ ہے کہ کیا میرواعظ حریت ڈایلاگ کی پوزیشن میں ہے ؟ کیا وہ اس کے لوازمات پورا کرنے کی طاقت رکھتی ہے؟ میرواعظ حریت نے بے شک ماضی میں دلی سے ڈایلاگ راستہ کھو لنے کی زبردست جرت کی مگر گیلانی نے ان کو پسپا کر دیا ،عسکریت پسندوں نے ان کو قبول نہیں کیا اور سرحد پار بیٹھے ملی ٹینسی کے سرپرستوں کی کا رستا نیاں جاری رہیں۔ علاحدگی پسند تنظیموں اور اتحادوں میں غالباً میرواعظ حریت کا نفرنس واحد اتحادی گروہ بچا ہے جس پر حکومت نے پابندی عاید نہیں کی ہے لیکن وہ نہ تو حالیہ الیکشن میں کود کر نمایندگی کا دعویٰ ثابت کرچکی ہے اور نہ ہی اس کو تشدد آمیز کا روائیوں کے اہم کرداروں کی حمایت یا عزت و احترام حاصل ہے ۔ اس کے باوجود وہ ڈایلاگ کا اختیار ہو نے کی دعویدار بن کر نیے سرے سے ظاہر ہو جا یے تو عقل ماتھا ہی پیٹے گی۔
