’’دستار بندی کرنے کی رسم کو ناجائز قرار دینا یا اس پر روک لگانا کسی طور بے جا نظر نہیں آتا ہے ۔ درگاہوں اور آستانوں پر دستار بندی کی اس رسم کو انجام دینے والوں نے کبھی بھی اس حوالے سے شرعی اصولوں یا مسلم مفاد کو مدنظر نہیں رکھا ۔ بلکہ جو کوئی بھی اقتدار سے منسلک شخص یہاں حاضر ہوا اس کے سرپر دستار بندی کی گئی ۔ بغیر کسی معیار اور دینی جذبے کے!‘‘
تجزیہ :ڈاکٹر جی ایم بٹ
مسلم وقف بورڈ کی طرف سے زیارت گاہوں اور خانقاہوں کے نظم و نسق میں بدلاو کے کئی اہم فیصلے سامنے آئے ۔ ان فیصلوں سے مبینہ طور یہاں رائج روایات کو یکسر بدل دیا گیا ۔ بورڈ کی چیرپرسن کا کہنا ہے کہ ایسے فیصلے عوام کی سہولت اور وقف نظام کو بہتر بنانے کی غرض سے لئے گئے ۔ ان کا خیال ہے کہ عوام نے ان فیصلوں کو پسند کیا ۔ تاہم کچھ استحصال پسند عناصر ان فیصلوں کی مخالفت کرتے ہیں ۔ سہی بات یہ ہے کہ ان فیصلوں پر کئی حلقوں میں بحث و مباحثہ جاری ہے ۔ سرکار مخالف سیاسی حلقے ان فیصلوں سے ناخوش ہیں ۔ حالانک عوام کا ایک بڑا طبقہ ان فیصلوں کا پسند کرتا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ کٹر اسلام پسند حلقے ان فیصلوں کو عین شریعت کے مطابق قرار دیتے ہیں ۔ اس کے برعکس خانقاہوں اور زیارت گاہوں سے بہت زیادہ عقیدت کا اظہار کرنے والے افراد ان فیصلوں پر کئی طرح کے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پرانی روایات کو ختم کرنا پسندیدہ فیصلہ نہیں ہے ۔ وقف بورڈ نے ایسے تمام خیالات اور تحفظات کو مسترد کیا ہے اور فیصلوں کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے ان پر عمل پیرا رہنے کا اعلان کیا ۔
زیارت گاہوں ، آستانوں اور دوسرے ایسے مقدس مقامات کے حوالے سے وقف بورڈ کی طرف سے بہت سے جراتمندانہ قدم اٹھائے گئے ۔ یہاں موجود چندہ اور خیرات جمع کرنے والوں کو ان کی خود مخصوص کی گئی جگہوں سے بے دخل کیا گیا اور ان کے کام کو وقف بورڈ کے اصول ضوابط کے خلاف قرار دیا گیا ۔ ان جگہوں پر قبضہ جمانے والے افراد کا کہنا ہے کہ انہیں ایسا کرنے کا قانونی حق حاصل ہے ۔ تاہم ان کے کرتوت سے بہت سے لوگ نالاں تھے ۔ ان کو بے دخل کرنے کا فیصلہ بی جے پی سرکار سے پہلے کسی نے لیا ہوتا تو یقینی طور اس فیصلے کو تمام حلقوں میں سراہا جاتا ۔ لیکن فیصلہ چونکہ ایک ایسی سرکار کے مقرر افراد کی طرف سے لیا گیا جسے مسلم حلقوں میں پذیرائی حاصل نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان فیصلوں کو غلط قرار دیا جارہاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان اقدامات وک مذہب کے بجائے سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ کئی حلقے اسے دین میں مداخلت قرار دے رہے ہیں ۔ ان حلقوں کو خدشہ ہے کہ اس بہانے سرکار دوسرے اسلامی اداروں پر ہاتھ ڈالنے کی سوچ رہی ہے ۔ ایسا سوچنا کیا صحیح ہے ، یہ الگ بات ہے ۔ تاہم خانقاہوں اور زیارت گاہوں پر لوگوں سے نذر ونیاز وصول کرنا بلکہ جبراََ لینا اور اس روایت کو ختم کرنا کسی طور ان مقدس مقامات کے خلاف لیا گیا فیصلہ نہیں ہے ۔ بلکہ ایسے فیصلے یقینی طور مسلم مفاد میں ہی قرار دئے جاسکتے ہیں ۔ اسی طرح یہاں دستار بندی کرنے کی رسم کو ناجائز قرار دینا یا اس پر روک لگانا کسی طور بے جا نظر نہیں آتا ہے ۔ درگاہوں اور آستانوں پر دستار بندی کی اس رسم کو انجام دینے والوں نے کبھی بھی اس حوالے سے شرعی اصولوں یا مسلم مفاد کو مدنظر نہیں رکھا ۔ بلکہ جو کوئی بھی اقتدار سے منسلک شخص یہاں حاضر ہوا اس کے سرپر دستار بندی کی گئی ۔ بغیر کسی معیار اور دینی جذبے کے دستار بندی کی رسم کو انجام دیا گیا ۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے اپنے کارکنوں اور دوسرے لیڈروں کی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دستار بندی کی گئی ۔ قاتل اور مقتول دونوں کی یہاں یکسان طور عزت افزائی کی گئی ۔ اس حوالے سے کئی حلقے چاہتے تھے کہ اس رسم پر روک لگادی جائے ۔ جو حلقے کل تک اس طرح کی فضولیات پر انگلی اٹھاتے تھے آج اس کے حق میں دلیلیں دیتے ہیں ۔ ان کی دلیل ممکن ہے کہ کسی طور وزن بھی رکھتی ہو ۔ تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایسی روایات کو دین یا ان مقدس مقامات کے مفاد کے زاویے سے دیکھ کر ان کی حمایت نہیں کی جاسکتی ہے ۔ ایسے فیصلوں سے عام لوگوں خاص کر ان مقامات پر آنے والے شہریوں کو بہت حد تک راحت حاصل ہوئی ہے ۔ ان جگہوں پر نذر ونیاز وصول کرنے والے کسی بھی طور اس کے مستحق قرار نہیں دئے جاسکتے ہیں ۔ اس کے بغیر کہ یہ لوگ کئی سالوں سے ان جگہوں پر قابض رہے ہیں ۔ ان کے دادا پردادا یہاں ایسا کرتا تھے ۔ اسی بات کو ان کا حق قرار دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ اس دوران یہاں چندہ جمع کرنے والوں نے کافی ترقی کی ۔ ایک تو یہ کہ انہیں بہت رقم اس طرح سے ملتی تھی ۔ اس کے علاوہ سرکاری حلقوں میں اثر ورسوخ حاصل ہونے کے بعد انہیں سرکاری نوکریاں بھی فراہم کی گئیں ۔ ان کے لئے کسی طور جائز نہیں کہ لوگوں کی طرف سے دی جانے والی عطیات کو یہ ہڑپ کرکے لے جائیں ۔ جو لوگ یہاں آتے ہیں ایک خاص عقیدت سے آتے اور اسی عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے یہاں کے پھیرے لگاتے ہیں ۔ اس دوران ان سے فیس لی جاتی اور ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ۔ لوگ ایسی رقم ہرگز خوشی خوشی نہیں بلکہ مجبور ہوکر ادا کرتے ہیں ۔ اس طرح کے اخراجات پر روک لگانا دین اور زائرین دونوں کے مفاد میں ہے ۔
