
سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے گاؤں دڑہا ڈنہ وارڈ نمبر چھ محلہ ملوکا والی، کی رہنے والی 13سالہ ایک نو جوان لڑکی ناظمہ ساتویں کلاس کی طالبہ تھی۔ ایک دن وہ جب اسکول سے گھر واپس آئی تو اسے پیٹ میں بہت ہی خطرناک دردہونے لگا۔ اس کی وجہ سے اُس کا پورا جسم کامپنے لگا۔ پانچ دن تک لگا تار اسے درد جاری رہا۔درد کی شدت کی وجہ سے وہ زرد پڑ گئی تھی۔گھر کے معاشی حالات بھی ٹھیک نہیں تھے کہ وہ کسی نزدیکی ہسپتال یانرسنگ ہوم میں جا کر اپنا چیکپ کرواتی۔ دس دن گزر گئے اسی طرح گھر پر ہی پڑی رہی۔ لیکن کسی بھی طرف سے اسے مدد نہیں ملی۔نہ تو اسے ایک وقت کی دوائیاں مل سکیں اور نہ ہی بہتر کھانا مل سکا۔ آخر ناظمہ گیارویں دن بعد انتقال کر گئی۔اس کی ماں نسیم اختربیٹی کی موت سے ٹوٹ چکی ہیں، وہ کہتی ہے کہ میں غریب مسکین ہوں اُسکا علاج سہی طریقے سے نہیں کروا سکی۔ میرے پاس پیسے نہیں تھے کہ میں اُسکے لئے خون کا انتظام کرتی۔اس کو خون کی کمی اس لئے ہوئی کیونکہ ہمارے گھر کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ دو وقت کی روٹی بہت مشکل سے میسر ہوتی ہے۔ میں اسکو اچھی غذا نہیں دے پائی۔ کبھی کبھار وہ بھوکی اسکول چلی جاتی تھی۔ مجھے فکر رہتی تھی کہ کہیں میری بیٹی فاقوں سے مر نہ جائے آخر وہی ہوا جس چیز سے میں ڈرتی تھی۔ بھوکی رہنے کی وجہ سے اُسکا خون ختم ہو گیا اور آج وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔
نسیم اخترکہتی ہیں کہ میرے گھر میں کسی بھی درد کی ایک دوائی بھی موجود نہیں تھی کہ میں اسکو دیتی۔ وہ کہتی ہیں کہ نو جوان لڑکیوں کے لیے بہت طرح کی اسکیمیں آتی ہیں۔لیکن کس کام کی وہ اسکیمیں جو میری بیٹی کے کام نہیں آئی؟ میرے گھر سے آدھا کیلومیٹر دور ڈسپنسری ہے۔لیکن اس میں کسی بھی قسم کی دوائی موجود نہیں ہے۔میری بیٹی دوا کے بغیراسی طرح سے گھر پر تڑپتی، سسکتی رہی۔ وہ کہتی ہیں کہ میری دو اور بیٹیاں روبینہ کوثر عمر نو سال اور شازیہ کوثر عمر انیس سال ہیں۔ میں یہی چاہتی ہوں کہ جیسے میری ناظمہ کے ساتھ ہوا ایسا انکے ساتھ نہیں نہ ہو۔ چاہتی ہوں کہ مجھے گورنمٹ کی طرف سے کچھ امداد مل جائے تا کہ میں اپنی ان دونوں بیٹیوں کی اچھی پرورش کر سکوں۔ نسیم اختر کہتی ہیں کہ میرا شوہر دماغی طور پربہت کمزور ہے۔ہم ماں بیٹیوں سے جھگڑا کرتا ہے اورخرچہ بھی نہیں دیتا ہے۔مجھے خود ہی محنت مزدوری کر کے بچوں کا پیٹ پالنا پڑتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ کسی اسکیم کے تحت ہماری مدد کی جائے تا کہ میری دونوں بیٹیوں کو بھرپور غذا مل سکے۔
اس سلسلے میں مقامی شمشاد اخترکامرحوم ناظمہ کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ ایک چھوٹی معصوم لڑکی ہولنا ک بیماری لگنے کی وجہ سے بہت زرد پڑھ گئی تھی۔ وہ کھانا پینا اچھے سے نہیں کر پاتی تھی۔ آہستہ آہستہ وہ کمزور ہوتی گئی۔اس میں خون کی کمی بھی ہو گئی تھی۔ ماں باپ کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کے وہ اسکو کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے۔اس نے اسی بیماری کی حالت میں ایک دن دم توڑ دیا۔وہ کہتی ہے کہ حال کے برسوں میں دیکھا جائے تو نوجوان لڑکیوں میں آج کل مختلف بیماریاں پھیلتی جا رہی ہیں۔ ان بیماریوں کے علاج کے لئے مفت کیمپ لگتے ہیں مفت دوائیاں دی جاتی ہیں۔ لیکن یہاں اس دور دراز پہاڑ ی علاقہ جات میں ان سکیموں کا نام و نشان تک نہیں ہے۔نہ ادھر کی ڈسپنسریوں میں ایسی دوائیا ں موجود کہ جسے کھا کر انسان کو راحت محسوس ہو۔یہاں ایکس پائری دوائیاں دی جاتی ہیں جنکو کھا کر انسان کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ اس وقت نوجوان لڑکیوں کی صحت پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔انہیں غذائیت سے بھرپورخوراک دستیاب کرانے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ بھی گھر کی اہم حصہ دار ہوتی ہیں۔
اسی حوالے سے ایک مقامی نرس یاسمین اختر کہتی ہیں کہ سائنسی تحقیق کی وجہ سے علاج و معالجے کے نئے طریقے دریافت ہوئے ہیں۔جس سے نوجوان لڑکیوں کی صحت کے موجودہ مسائل کو حل کرنے میں خاص بہتری آئی ہے۔اس کے باوجود لاکھوں نوجوان لڑکیاں ایسی بیماریاں جھیل رہی ہیں جن سے بچا جا سکتا ہے اورانکا علاج ہو سکتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ نوعمر لڑکیاں آج کل ہر طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہی ہیں جسے حیض میں درد، کمر درد، میدے کا درد، خون کی کمی، کینسر، بلڈ پریشر ہائی، جگری بیماریاں وغیرہ۔ جبکہ انہیں اس بات کا علم ہونا چائیے کہ ہمیں اپنی زندگی کا تحفظ کس طرح کرنا ہے؟ان بیماریوں سے کیسے بچنا چائیے؟وہ مشورہ دیتی ہیں کہ نوجوان لڑکیاں وقت پر کھانا کھائیں، جتنا ہوسکے پانی پئے،اچھی اچھی غذا لیں، اپنی صفائی رکھیں صبح سویرے اٹھ کر تھوڑی ورزش کرئیں، کسی بھی طرح کا درد ہو تو اُسّے چھپائے نہیں بلکہ نزدیکی ہسپتال میں جا کر جانچ کروائیں تاکہ کسی بھی بیماری کا وقت پر پتہ چل پائے۔وہ کہتی ہیں کہ نوجوان لڑکیوں کو ان چیزوں پر دھان دینے کی ضرورت ہے تبھی جا کر آپ صحت مند رہ پاؤں گی۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ غذائیت کی کمی سے نو عمر لڑکیوں میں معتدد بیماریوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ جس پر گھر اور سماج سبھی کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا اورڈ 2022کے تحت لکھی گئی ہے۔(چرخہ فیچرس)
