تحریر:شازیہ چودھری
”کم از کم دو بیٹے تو ہونے چاہیے“ یہ الفاظ تھے جموں کشمیر کے سرحدی ضلع راجوری کے ایک دور دراز گاؤں کی نسرین اختر (نام تبدیل) کے جو کہ چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کی ماں تھی اور اب پھر سے حاملہ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ بیٹیاں تو پرایا دھن ہیں کل کو پیا کے دیس چلی جائیں گی یہ تو بیٹے ہی ہوتے ہیں جو والدین کا سہارا ہوتے ہیں۔اس نے مزید بتایا کہ بیٹے کی خواہش میں اس کے پہ در پہ چار بیٹیاں پیدا ہو گئیں اور پھر چوتھی بیٹی کے بعد اللہ نے اسے بیٹے سے نوازا تو اسے لگا کہ اب اسکی زندگی آسان ہوگی۔ لیکن اسکے شوہر کا کہنا تھا کہ کم سے کم دو بیٹے ہونے چاہیے جو کل کو ہمارے بڑھاپے کا سہارا ہوں گے اور ہماری نسل کو آگے بڑھائیں گے۔ پھر کچھ مہینوں بعد مجھے پتہ چلا کہ نسرین کو پانچویں بیٹی پیدا ہوئی ہے لیکن وہ خود بیٹی کو جنم دیتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئی ہے۔ جب میں نے اس کی موت کے بارے میں گاؤں کی کچھ خواتین سے دریافت کیا جو کہ اس کی ہمسایہ بھی تھیں تو پتہ چلا کہ بیٹی کی پیدائش کے دوران خون کا بہت زیادہ زیاں ہونے کی وجہ سے اور بر وقت ہسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے نسرین کی موت واقع ہو گئی۔
دراصل نسرین ایک غریب گھرانے کی لڑکی تھی جس کی شادی 16 سال کی عمر میں کر دی گئی تھی۔ اس کا شوہر عبدالحمید بھی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور محنت مزدوری کر کے گھر چلاتا تھا۔ نسرین کو جب پہلی بیٹی پیدا ہوئی تو بیٹے کی خواہش میں وہ سال بھرکے اندر اندر پھر سے حاملہ ہو گئی۔ دوسری بار بھی جب بیٹی پیدا ہوئی تو پھر سے وہی عمل دوہرایا گیا۔اسی طرح بیٹے کی چاہت میں نسرین کوچار بیٹیاں پیدا ہو گئیں۔ جن کی پرورش بھی صحیح ڈھنگ سے نہیں ہوئی۔ خوراک کی کمی سب سے بڑا مسلہ رہا اسکے ساتھ دو کمروں پر مشتمل کچا گھر، بیت الخلاء کا نہ ہونا،صفاء ستھرائی کی کمی اور نسرین کے پہ در پہ بچوں کو جنم دینے سے جسم میں خون کی کمی اس سب کے باوجود بیٹے کی چاہت میں بیٹیوں کی لائین اور پھر بیٹے کا پیدا ہونا لیکن شوہر کی دو بیٹوں کی خواہش نے اس کی جان لے لی۔سوال یہ ہے کہ آخر کب تک بیٹوں کی چاہت میں بیٹیاں اور مائیں ظلم سہتی رہیں گی؟ کب تک مائیں بیٹوں کے لئے ان چاہی بیٹیوں کو جنم دے کر دوسروں کے رحم و کرم پہ چھوڑتی رہیں گی؟ جیسا کہ نسرین نے بیٹے کے لئے ان چاہی بیٹیوں کو جنم دیا اور آخر کار زمانے کے بے رحم تھپیڑوں کے حوالے کر کے خود اس دنیا کو خیر باد کہہ گئی۔
یہ صرف ایک نسرین کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہمارے ملک کی ہر اس ماں کی کہانی ہے جس کی خوشحال ازدواجی زندگی کی ضمانت بیٹوں کو جنم دینا ہے اور اسی خواہش میں بیٹیوں کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے۔آخر کیا ملا نسرین کے شوہر کو؟ دوبیٹوں کی خواہش کے بدلے میں بیوی کی موت اور پانچ بن ماں کی بچیوں کا ساتھ؟ اور پھر یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ ان بیٹیوں کی جو حالت زار ہوئے وہ ایک ایسا بھیانک سچ ہے کہ انسان کی روح تک کانپ جاتی ہے۔ نسرین کی موت کے وقت اس کی بڑی بیٹی پانچویں جماعت کی طالبہ تھی،دوسری بیٹی چوتھی جماعت جبکہ تیسری بیٹی تیسری جماعت کی طالبہ تھی اور چوتھی بیٹی دوسری جماعت کی طالبہ تھی۔ ماں کے مرنے کے بعد اب گھر کی ذمہ داری اور خاصکر اس ایک دن کی نو مولود بچی کی ذمہ داری بھی ان بہنوں کے سر آ گئی تھی۔ بڑی بیٹی کو کھانا بھی خود بنانا تھا،بہنوں کو بھی دیکھنا تھا۔چونکہ ان کا باپ ایک مزدور پیشہ انسان تھا اسلئے اس کو محنت مزدوری کے لئے گھر سے باہر جانا پڑتا تھا لڑکیوں کو اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا تھا۔ ذرا سوچیں پانچویں اور چوتھی جماعت کی طالبات کی کیا عمر ہوگی؟ وہ دونوں باری باری اسکول جاتیں تھیں۔ ایک دن ایک گھر میں رکتی اور چھوٹی بہن کی دیکھ بھال کرتی اور ایک دن دوسری۔ اس طرح یہ پانچوں بہنیں وقت سے پہلے بڑی ہو گئیں۔نسرین جیسی کئی خواتین بیٹا پیدا کرنے کے سماجی دباؤ کے سبب کئی بار دردِ زہ برداشت کرتی ہیں، اور پھر بچوں کی پیدائش میں وقفہ نہ ہونے کی وجہ سے بھی کئی پیچیدگیوں سے گزرتی ہیں۔ بچوں کی پیدائش میں اگر مناسب وقفہ نہ ہو تو زچہ و بچہ دونوں کی آئیندہ زندگی کے لئے صحت سے متعلقہ خطرات بڑھ جاتے ہیں اور زچہ یا بچہ کی جان بھی چلی جاتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی 2005 کی ایک تحقیق کے مطابق دو حمل کے دوران وقفہ کم از کم 24 سے 33 مہینے ہونا چاہیے کیونکہ اس دوران ماں کی صحت کافی بہتر ہو جاتی ہے اور وہ اگلے بچے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔کینیڈا میں بھی ہونے والی ایک اور تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ’ایک حمل سے دوسرے حمل کے دوران ایک سے ڈیڑھ سال کا وقفہ ضروری ہے‘۔اکثر خواتین بچوں کے پیچھے اپنی صحت کو درگزر کر دیتی ہیں۔ پہلے حمل اور اس کے بعد ہونے والے حمل میں فرق ہوتا ہے کیونکہ پہلے حمل کے بعد عورت جسمانی طور پر کمزور ہوتی رہتی ہے۔ وہ اپنے کھانے پینے کا دھیان نہیں رکھتی اور اندر سے بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ بہت زیادہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔کیلشیم کی کمی، خون کی کمی، تھکاوٹ اور سی سیکشن کی وجہ سے وزن اٹھانے میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔ ماں کا صحت مند ہونا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا بچے کا اس دنیا میں آنا۔بچوں میں مناسب وقفہ نہ ہونے سے خواتین اور بچوں کی صحت پر انتہائی بُرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور حمل کے دوران پیچیدگیاں بڑھنے سے ماں کے مرنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ جیسا کہ نسرین کے ساتھ ہوا۔
بچوں کی پیدائش میں نا مناسب وقفے کی وجہ سے ماں کو اینیمیا کا مرض ہو جاتا ہے جس سے خون کی کمی ہو جاتی ہے، فولک ایسڈ کی کمی ہو جاتی ہے۔ فولک ایسڈ ایک ایسا وٹامن ہے جو بچے کے دماغ اور کمر کی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔ اگر ماں میں فولک ایسڈ کم ہو تو بچے کے دماغ اور کمر میں پانی جمع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وقفہ کم ہو تو بچوں میں آٹزم کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے اور بچے اتنی جلدی جلدی پیدا ہوتے ہیں کہ ماں اپنے بچوں کو بھی صحیح وقت نہیں دے سکتی۔ جلدی جلدی حمل کی وجہ سے ماں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلا سکتی اور دودھ چھڑوانا پڑتا ہے ا ور بچے فیڈر پر آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے بچے جسمانی، دماغی اور جذباتی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔عالمی ادارہ اطفال کے مطابق 15 سے19 سال تک کی عمر کی ماں کا زچگی کے دوران مرنے کا امکان 20 سال کی عمر میں ماں بننے والی لڑکی کی نسبت دگنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کم عمر مائیں اکثر پری میچور پیدائش (وقت سے پہلے) کے زیادہ کیسز ہونے کا امکان ہوتا ہے جو کہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔کم عمری میں ماں بننے والی لڑکیوں اور ان کے نوزائیدہ بچوں کی اموات کا قریبی تعلق ماں کی صحت کے ساتھ بھی وابستہ ہے کیونکہ ابھی لڑکی کی اپنی نشوونما کا عمل جاری ہوتا ہے کہ وہ ماں بن جاتی ہے جس سے زچہ و بچہ دونوں کی صحت متاثر ہوتی ہے اور پیدا ہونے والے بچے کم وزن، کمزور اور مائیں خون کی کمی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
حمل کے دوران اور بعد از زچگی خواتین کا میڈیکل چیک اپ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسا کرنے سے خواتین کو حمل کے دوران، زچگی کے وقت اور اس کے بعد کی پیچیدگیوں اور خطرات کی علامات سے آگاہ ہونے، حفاظتی ٹیکوں، خوراک، احتیاطی تدابیر، بچے کی دیکھ بھال اس کی خوراک اور صحت کے بارے میں مفید معلومات ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ زچہ و بچہ میں کسی قسم کی پیچیدگی کاناصرف بروقت پتہ چل جاتا ہے بلکہ اس کے علاج اور احتیاط کے ساتھ ساتھ بچے کی نگہداشت کے بارے میں ضروری ہدایات بھی مل جاتی ہیں۔ہمارے ملک کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں شہری آبادی کی نسبت دیہی آبادی زیادہ ہے۔ اور ایسی ہی صورتحال خواتین کے حوالے سے بھی ہے۔ اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کسی بھی خاتون کو نارمل صورتحال میں سے 4 بار چیک اپ کا مشورہ دیتا ہے لیکن ہمارے مخصوص حالات میں ماہرین کم از کم ایک بار ہی چیک اپ کروا لینے پر زور دیتے ہیں۔دیہی علاقوں میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات شہری علاقوں کی نسبت تقریباً دگنا سے زائد ہے۔جو یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ ہمارے دیہی علاقوں میں زچگی کا عمل کتنا محفوظ ہے؟ اس کے جواب کے پس منظر میں موجود بہت سی تلخیوں میں سے ایک ہمارے انفرادی رویئے بھی ہیں کیونکہ ہم بحیثیت شوہر، ساس، سسر، باپ اور بھائی دوران حمل اور بعد از حمل ماؤں کو تربیت یافتہ طبی عملے سے چیک اپ کروانے، زچگی کے وقت تربیت یافتہ طبی ماہر کی خدمات اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی برتتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں معیاری اور سستی تولیدی صحت کی سہولیات کی بآسانی دستیابی اور لوگوں کی اُن تک رسائی نہ ہونے کے نتیجے میں یہ لاپرواہی اور محرومی ہمیں خوشیوں کے بجائے پچھتاوے کا روگ دے جاتی ہے۔
دیہی علاقوں میں زچہ میں غزائیت کی کمی کی وجہ سے بھی بہت زیادہ پیچیدگیاں پاء جاتی ہیں۔ہمارے دیہی علاقے کی عورت کا عام طور پر یہ خیال ہوتا ہے کہ، ”اچھی غذا اور توانائی کی ضرورت تو مردوں اور لڑکوں کو ہوتی ہے تاکہ محنت مزدوری کے قابل تو بن سکیں“۔ خواتین تو گھر میں ہوتی ہیں، اچھا کھانا کھا کر کیا کریں گی؟“ہم ان الفاظ کو کسی عورت کا جاہلانہ سوچ کہہ سکتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کی عام معاشی حقیقت ہے۔ دیہی علاقوں کے سرکاری ہسپتال کا کبھی جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ ملک کی 60 سے 70فیصد آبادی، جو زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے، وہ کس قدر خستہ حال زندگی گزار رہی ہے۔غذائی توانائی کی کمی کی وجہ سے زچہ کبھی کبھار تو ہسپتال کی چارپائی پر دم توڑ دیتی ہیں اور پیچھے نسرین کی طرح غذائیت سے محروم بچوں کا ایک لاوارث انبار چھوڑ جاتی ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے، بہت سارے گھروں میں خواتین پر بیٹے جنم دینے کا معاشرتی اور خاندانی دباؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ بچے پیدا کرنے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں رہتا۔ بیٹا جنم دینے کا سیدھا سادہ مطلب ہوتا ہے کہ ایک معاشی مدد گار پیدا کیا جائے۔ اسی خواہش کی آڑ میں مانع حمل اقدامات کو گناہ بھی قرار دے دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں دیہی علاقوں میں خواتین کی بہت سی محرومیوں میں سے ایک بڑی واضح محرومی کا شکار خواتین کی تولیدی صحت کا شعبہ ہے اور یہ صورتحال توجہ طلب ہے۔
1994 میں آبادی اور ترقی پر بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں خاندانی منصوبہ بندی کو بنیادی انسانی حقوق کے دائرے میں لانے پر زور دیا گیا۔ لیکن 30 سال گزرنے کے بعد بھی اور اکیسویں صدی جیسے دور میں بھی صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی اور جہاں خواتین منصوبہ بندی کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے قابل نہیں، وہاں کے حالات خراب ہیں۔ اور ان کا حال لگ بھگ نسرین جیسا ہی ہے۔ آئین ِ ہند میں بھی خواتین کو مساوی حقوق دیئے گئے ہیں اور وقتاً فوقتاً مرکز سے لے کر تمام ریاستی حکومتیں خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کی تولیدی صحت کو بہتر بنانے کے لیئے اسکیمیں چلاتی رہتی ہیں جن میں سے کچھ ایک کی تفصیل یوں ہے۔ملک بھر میں 25,000 سے زیادہ‘ڈیلیوری پوائنٹس ’(زچگی مراکز) کو جامع تولیدی-زچہ بچہ-نومولود بچوں اور نوعمروں کی صحت کی جامع خدمات کی فراہمی کے لئے بنیادی ڈھانچے، آلات اور تربیت یافتہ افرادی قوت کے لحاظ سے مضبوط کیا گیا ہے۔قومی صحت مشن (این ایج ایم) مساوی، سستی، کفایتی اور معیاری حفظان صحت خدمات تک ہمہ گیر رسائی حاصل کرنے کا تصور کرتا ہے جو لوگوں کی ضروریات کے لیے ذمہ دار اور جوابدہ ہوں۔ پروگرام کے اہم اجزاء میں دیہی اور شہری علاقوں میں صحت نظام کی مضبوطی، تولیدی-زچگی- نومولود بچوں اور نوعمر بچوں کی صحت (آر ایم این سی ایچ+ اے) اور متعدی اور غیر متعدی امراض سے حفاظت شامل ہیں۔
قومی صحت مشن کے تحت وسائل کی دستیابی کے ساتھ مشروط کرکے ان کے پروگرام کے نفاذ کے منصوبوں (پی آئی پی) میں پیش کردہ تجاویز کی بنیاد پر ریاستوں /مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ان کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے تکنیکی اور مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔’لکشیہ‘معیار میں بہتری کا ایک اقدام ہے، جو 2017 میں صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کے ذریعے شروع کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد زچگی اور بچے کی پیدائش کے فوراً بعد کی مدت کے دوران نگہداشت کے معیار کو بہتر بنانے کے مقصد سے روکے جانے والی زچگی کے دوران ماؤں کی اموات اور بیماری میں کمی کی کوششوں کو تیز کرنا ہے۔ یہ اقدام خاص طور پر لیبر روم اور میٹرنٹی آپریشن تھیٹر میں فراہم کی جانے والی پیدائش کے ارد گرد کی دیکھ بھال پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ یہ تمام سرکاری میڈیکل کالج اسپتالوں، ضلعی اسپتالوں اور مساوی صحت سہولتوں، تمام نامزد ایف آر یو اور ہائی کیس لوڈ کمیونٹی صحت مراکز میں شروع کیا گیا ہے۔
مسکان اسکیم 2021 میں شروع کی گئی تھی تاکہ صحت عامہ کی سہولیات میں بچوں کے لیے اعلیٰ معیار کی اور محفوظ دوستانہ خدمات فراہم کی جا سکیں اور نوزائیدہ بچوں کی اموات اور بیماری کی روک تھام میں تعاون کیا جا سکے۔ یہ بچوں کے لیے دوستانہ خدمات کو مریضوں اور ان کے والدین کے لیے قابل رسائی اور دستیاب بناتا ہے، نیز بچوں کے لیے دوستانہ ماحول فراہم کرتا ہے، دودھ پلانے کو فروغ دیتا ہے، تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے اور ماں /والدین کی خدمت گزار کو باعزت اور باوقار دیکھ بھال فراہم کرتا ہے۔سرکشت میترتوا اشواسن (سمن) بغیر کسی قیمت کے یقینی، باوقار، باعزت اور معیاری صحت کی دیکھ بھال فراہم کرتا ہے اور صحت عامہ سہولتوں میں آنے والی ہر خاتون اور نوزائیدہ بچے کو ہر طرح کی خدمات فراہم کرتا ہے تاکہ ماؤں اور نوزائیدہ اموات کو روکا جا سکے۔جننی سرکشا یوجنا (جے ایس وَئی)، اسپتالوں میں زچگی کو فروغ دینے اور مشروط نقد منتقلی کی اسکیم۔جننی ششو سرکشا کاریہ کرم (جے ایس ایس کے) کے تحت ہر حاملہ خاتون صحت عامہ کے اداروں میں مفت ڈیلیوری، بشمول سیزرین سیکشن، مفت ٹرانسپورٹ، علاج، ادویات، دیگر استعمال کی اشیاء اور خوراک کی فراہمی کی حقدار ہے۔ تولیدی اور بچوں کی صحت (آر سی ایچ) پورٹل حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے لیے نام پر مبنی ویب سے چلنے والا ٹریکنگ سسٹم ہے تاکہ ان کے لیے پیدائش سے پہلے کی دیکھ بھال، ادارہ جاتی ڈیلیوری اور بعد از پیدائش کی دیکھ بھال سمیت باقاعدہ اور مکمل خدمات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس سب کے باوجود عورتوں اور مردوں کے درمیان یہ امتیازی فرق اتنا وسیع کیوں ہے؟ دراصل حقوق فراہم کرنے اور اسکیموں کو چلانے سے مسئلوں کا حل ممکن نہیں ہے بلکہ اس کیلئے بیداری ضروری ہے اور یہ صرف تعلیم ہی سے ممکن ہے۔ یہ ایک واضح سچائی ہے کہ معاشرہ جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ باشعور ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں اس کی کمی ہو وہاں خواتین کو اپنے حقوق کیسے حاصل ہوں گے؟ اور یہ بھی ایک واضح سچاء ہے کہ دیہی علاقوں میں خواتین میں تعلیم اور شعور دونوں کی کمی ہے اسلیئے اسکیمیں بھی تبھی کا گر ثابت ہوں گی جب دیہی خواتین کو تعلیم، شعور اور بیداری جیسے ہتھیاروں سے لیس کیا جائے گا۔ (چرخہ فیچرس)
