تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
سرکار کی طرف سے مبینہ طور ناجائز تجاوزات ہٹانے کی مہم بڑے پیمانے پر جاری ہے ۔ اب تک سرینگر سے لے کر دور دراز علاقوں تک اس مہم کے تحت بیسیوں تعمیرات گرانے کے علاوہ کئی سو ایکڑ اراضی واگزار کی گئی ۔ انہدامی مہم کی وجہ سے لوگ سخت اضطراب کا شکار ہیں ۔ پہلے اندازہ تھا کہ عام شہری آبادی کو اس کی زد میں لانے کے بجائے کاروائی مختصر اور محدود ہوگی ۔ لیکن بہت جلد اس مہم نے جارحانہ رخ اختیار کیا اور بڑے پیمانے پر لوگ اس کے دائرے میں آنے لگے۔ یہ مہم ہی ایسی ہے کہ اس سے بچنے کے بہت کم امکانات ہیں ۔ یہاں مجرم اور بے گناہ سب ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جاتے ہیں اور کسی قسم کی رو رعایت کے بغیر سب کچھ تہس نہس ہوکر رہ جاتا ہے ۔ اس دوران یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے کہ لوگ کسی کے پاس آہ وزاری کرپاتے نہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں ۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے پہلے ہی اس حوالے سے سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے کسی قسم کی راحت دینے سے انکار کیا ۔ بلکہ عدالت نے تاکید کی کہ سرکار جلد از جلد ہڑپ کی گئی اراضی کو واگزار کرائے ۔ قانونی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دی جاسکتی کہ کوئی شہری وراثتی زمین کو چھوڑنے کی اجازت تو نہ دے ۔ الٹا دوسروں کی زمین ہڑپ کر لے ۔ آئین اور قانون اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا ۔ یہ حکومت کا کام ہوتا ہے کہ اپنے عوام کی زندگی کو آرام دہ بنانے کے لئے جائز اقدامات کے علاوہ معمولی نوعیت کے ناجائز کاموں سے صرف نظر کرے ۔ حکومت کو ایسا کرنے کے لئے عام شہری زور نہیں ڈال سکتے ۔ بلکہ یہ ان کی اپنی ثواب دید اورسیاسی لیڈر شپ کی تگ و دو سے ممکن ہوسکتا ہے ۔ یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ جموں علاقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے لیڈر وں نے عوام سے ہمدردی دکھا کر مرکزی سرکار کے سامنے ان کا کیس بہتر طریقے سے رکھا ۔ اس کے بجائے کشمیر کی سیاسی لیڈر شپ نے ایک بار پھر عوام کو
مایوس کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جموں میں انہدامی مہم کسی حد تک سست پڑ گئی ۔ اس کے بجائے کشمیر خطے میں اس کا زور دن بہ دن بڑھ رہاہے ۔
کشمیر میں حکومت مخالف سرگرمیاںہاتھ میں لینا بڑا مشکل ہے ۔ یہ بہت ہی حساس علاقہ ہے جہاں ایسی سرگرمیوں کی آڑ میں ملکی مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ رہتا ہے ۔ حالانکہ انہدامی مہم کو لے کر سرکار سے بات چیت کی جائے یا مزاحمت تک بات پہنچے تو اس سے ملک کو کوئی خطرہ ہے نہ سرکار کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ حکومت نے بھی ایسی کسی مزاحمت کو ملک دشمنی سے تعبیر نہیں کیا ۔ سرینگر کے لالچوک علاقے میںپہلے مرحلے پر مبینہ طور ناجائز طریقے سے تعمیر کی گئی کئی دکانوں کو بند کیا گیا ۔ وہاں کی ٹریڈ یونین نے اس مسئلے پر گورنر تک اپنے تحفظات پہنچائے تو اگلے دن ان کے مطالبات مان کر دکانیں دوبارہ کھول دی گئیں ۔ اسی طرح غلام نبی آزاد نے اس مسئلے پر مرکزی وزیرداخلہ سے ملاقات کرکے غریب عوام پر پڑنے والے اثرات کی نشاندہی کی ۔ کہا جاتا ہے کہ وزیرداخلہ نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے مفادات کو نہیں چھیڑا جائے گا ۔ اسی طرح جموں شہر اور اس کے مضافات میں ہونے والی مجوزہ انہدامی کاروائی پر کئی حلقوں کی طرف سے آواز اٹھانے پر سرکار ممکنہ چھوٹ دینے پر آمادہ ہوئی ہے ۔ اس کے بجائے کشمیر میں سیاسی لیڈر شپ ایک بار پھر عوام کے ساتھ کھڑا ہونے میں ناکام رہی ہے ۔ یہاں بدقسمتی یہ ہے کہ ان سیاسی حلقوں کے اپنے ذاتی مفادات دائو پر لگے ہیں ۔ ان کے اثاثے انہدامی کاروائی کی زد میں آگئے اور ان پر بلڈوزر چلایا گیا ۔اس کاروائی کے خلاف ان لیڈروں نے سخت شور مچایا اور واویلا کیا ۔ اس معاملے کو لے کر انہوں نے انتظامیہ کو دھمکیاں دیں اور زبان درازی کی ۔ لیکن عام اور غریب شہریوں کی مدد کو آنا انہوں نے ضروری نہیں سمجھا ۔ یہ بہترین موقع تھا کہ سیاسی لیڈر عوام میں اپنے لئے ہمدردی پیدا کرسکتے تھے ۔ لیکن انہوں نے ایسا کرنا مناسب سمجھا نہ ضروری ۔ غریب عوام کو انتظامیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ۔ عوام آگے جاکر کسی نہ کسی موقعے پر دوبارہ کھڑا ہونگے ۔ لیکن یہاں کی لیڈر شپ نے اس حوالے سے جس طرح کی بے حسی اور بے بسی کا اظہار کیا اس سے لوگ بہت حد تک مایوس ہوگئے ۔ بھارت جوڑو یاترا کے موقعے پر سرکار سے فرنٹ لینا ان لیڈروں کے لئے مشکل ثابت نہ ہوا ۔ لوگوں نے بھی اس موقعے پر ان لیڈروں کو مایوس نہ کیا ۔ شدید سردی کے باوجود لوگ سڑکوں پر آکر ریلی میں شامل ہوگئے ۔ اس ذریعے سے انہوں نے کانگریس قیادت کو کسی حد تک مطمئن کیا ۔ لیکن جب عام لوگوں کو ان کی ضرورت تھی تو یہ نہ صرف پیچھے رہے بلکہ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرتے رہے ۔ ہر ایسے عوام کش اقدام پر ان لیڈروں کا یہی رویہ رہا ہے ۔ ملی ٹنسی کا آغاز ہوا تو ان لیڈروں نے بیرون ملک جاکر اپنی جان بچائی ۔ کوئی بڑی آفت آئی تو یہ لیڈر کشمیر سے باہر تفریح کے مشاغل میں لگے تھے ۔ یہاں سیلاب اور زلزلے جیسی کوئی آفت آئی تو انہوں نے لوگوں کو بے یارو مددگار چھوڑا ۔ آج قدرت بلکہ مرکزی سرکار نے انہیں بہترین موقع دیا تھا جس کا فائدہ اٹھاکر دہلی جاکر لوگوں کے مسائل کی وکالت کی جاتی ۔ مرکزی سرکار نے ان کے لئے اپنے دروازے بند نہیں کئے ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بی جے پی اور انتظامیہ کی طرف سے لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہارتو کیا جاتا ہے ۔ لیکن روایتی لیڈر شپ عوام سے دور رہنے کی کوشش کررہی ہے ۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی ۔ لوگوں سے ہمدردی جتانا اب بھی ممکن ہے ۔ بشرطیکہ لوگوں کے مسائل سے دلچسپی اور سامنے آنے کی جرات ہو ۔
