
کم عمری کی شادی ہندوستان میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں ایک مستقل مسئلہ ہے۔ دیہی علاقوں کے بہت سے خاندانوں کے لیے، خاص طور پر غریب ترین، بیٹیوں کو اسکول بھیجنے کا خرچ ایک اضافی بوجھ لگتا ہے۔ بالخصوص جب اسکولوں کیلئے برائے نام براہ راست اور بالواسطہ فیس کی ضرورت ہوتی ہے۔جموں اور کشمیر کے بہت سے دیہی علاقوں میں خاندان اپنی بیٹیوں سے گھر کی صفائی، کھانا پکانے، چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال اور کھیتوں میں مدد کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔ جب ایک غریب خاندان ان ضروریات کو تنخواہ دینے والی نوکری کے بظاہر معمولی موقع کے مقابلے میں تولتا ہے تو اسے گھر میں رکھنا اسے اسکول بھیجنے سے زیادہ ممکنہ نتیجہ سمجھ آتا ہے۔بہت سے خاندان صرف اپنے بیٹوں کو اپنے مستقبل کے خاندانوں کا کمانے والا اور اپنے بوڑھے والدین کا سہارا سمجھتے ہیں، جو لڑکوں کو تعلیم دینے کی ترغیب ہے۔لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں جیسے کہ غربت، کم عمرکی شادی اور صنفی بنیاد پر تشدد ممالک اور کمیونٹیز میں مختلف ہوتی ہیں۔ تعلیم میں سرمایہ کاری کرتے وقت غریب خاندان اکثر لڑکوں کی حمایت کرتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر، اسکول لڑکیوں کی حفاظت، حفظان صحت یا صفائی کی ضروریات کو پورا نہیں کرتے ہیں اور یہ بھی ان ک تعلیم میں ایک دیوار کا کام کرتے ہیں۔
ماضی کے مد مقابل حال میں کہیں زیادہ لڑکیاں اسکول جانے لگی ہیں۔ تاہم ترقی کے باوجود خواتین اور لڑکیوں کو جنس کی بنیاد پر متعدد رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دیگر عوامل جیسے عمر، نسل، غربت اور معذوری، معیاری تعلیم اور خاندانوں تک رسائی کے حق کے مساوی لطف اندوز ہونے میں لڑکیوں کی تعلیم کے بجائے لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔اس کے بر عکس لڑکیوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ جب ایک لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے، تو اکثر اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سکول چھوڑ دے گی اور اس کی رسمی تعلیم ختم ہو جائے گی۔ ایک لڑکی کا اپنی شادی سے پہلے یا اس کے فوراً بعد اسکول چھوڑنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ایک بیوی یا ماں کے طور پر، اس سے اکثر توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر، بچوں اور خاندان کا خیال رکھے۔ شادی شدہ لڑکی کے لیے اسکول واپس آنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ شادی شدہ لڑکیوں کو تعلیم کی راہ میں بہت سی عملی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں گھریلو ذمہ داریاں، اسکول سے جبری اخراج اور صنفی اصول شامل ہیں جو انہیں گھر میں رکھتے ہیں۔ جموں کے ایک دور دراز علاقے کی رہنے والی مسکان کا کہنا ہے کی جب اسکی عمر تقریباً16 سال تھی تب اسکے والدین نے اسکی شادی کر دی تھی حالانکہ وہ پڑھنا چاہتی تھی اور تعلیم یافتہ ہوکرکچھ بننا چاہتی تھی۔ لیکن شادی نے اسکے سارے ارمان ختم کر دئے۔اب وہ تین بچوں کی ماں ہے،اس کے گھر میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹاہے۔اپنی زندگی میں مسکان اپنی بیٹیوں کو پڑھانا چاہتی ہے اور کسی قابل بنانا چاہتی ہے۔مسکان کا ماننا ہے کہ جو وہ نہیں کر پائی وہ اب اسکے بچے کریں گے۔
اسی سلسلے میں ضلع رام بن کی رہنے والی ناہیدہ کا کہنا ہے کہ میری شادی بھی کم عمری میں ہوئی۔انہوں نے کہاکہ میں شادی کو ہمیشہ سے ہی ایک لڑکی کی زندگی کا نیا جنم سمجھتی تھی لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔شادی ایک جانب آپکو نئی پہچان دیتی ہے لیکن دوسری جانب آپکی خود کی پہچان کہیں گم ہوجاتی ہے۔ شادی کے بعدآپکے خواب آپکے نہیں ہوتے بلکہ آپ دوسروں کے خواب پورے کرنے میں لگ جاتی ہیں۔انہوں نے مزیدکہاکہ ہمارے سماج میں لڑکی کو شادی کے بعد گھر سنبھالنے والییا، کام والی عورت سمجھا جاتا ہے۔ ناہیدہ نے کہاکہ خاص کر دیہی علاقوں کی خواتین سے یہی امید کی جاتی ہے کے وہ گھر کا کام کریں،بچوں کو اور گھر کو سنبھالیں،بوڑھے ماں باپ کی خدمت کریں۔حالانکہ اس میں کوئی بری بات بھی نہیں ہے۔ لیکن خواتین کو فقط انہی کاموں کے قابل سمجھنا اور اسے عزت نہ دینا اور اسے ان کاموں کے سوائے کسی لائق نہ سمجھنا ایک غلط بات ہے۔کم عمری میں شادی اور تعلیم سے دوری کے بارے میں بات کرتے ہوئے کشمیرکے ایک نوگام علاقہ کی حمیدہ بیگم کا کہنا ہے کہ ’میری شادی بھی جلدی ہوگئی تھی۔حمیدہ کہتی ہیں کہ میں نے سوچا تھا بڑے ہوکر پڑھ لکھ کرمیں ٹیچر بنوں گی لیکن یہ نہیں سوچا تھا کہ جلدی ہی شادی ہو جائے گی اور زندگی میں پھر اسکول کبھی بھی جانا نہیں ہوگا۔وہی کہتی ہیں کہ جب میری شادی ہوئی تھی،اُن دنوں ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کی اسکولی تعلیم کی کوئی افادیت نہیں سمجھی جاتی تھی۔اس سلسلے میں ایک خاتون بتاتی ہیں کہ جموں کے دیہی علاقہ برمینی میں گجر بکروال طبقہ میں یہ رواج اب بھی ہے کہ لڑکیوں کومیٹرک تک ہی پڑھا لکھا کر انکی شادی کر دی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں مذکورہ طبقہ کی نویں جماعت میں پڑھنے والی ایک بچی کی شادی کر دی گئی اورپھر اس پر گھر کی ساری ذمہ داریاں ڈال دی گیں۔انہوں نے مزیدکہاکہ ہمارے دیہی علاقہ جات میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ لڑکی کو صرف لکھنا پڑھنا آگیا تو کافی ہے لیکن اس کے مستقبل کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔
جہا ں ایک طرف دنیا عالمی وبائی مرض کرونا وائرس کے اثر ات سے دو چار ہو رہی تھی تووہیں دوسری جانب جموں و کشمیر کے کی دیہی علاقوں میں اسکول جانے والی لڑکیوں کی شادیاں ہو رہی تھی۔جب لڑکیوں کی جلد شادی کر دی جاتی ہے، تو یہ ان کی تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت پر بڑا اثر ڈال سکتا ہے۔ دلہن بننے والی بہت سی لڑکیوں کو سکول سے دور کردیا جاتا ہے اور ان کی تعلیم مکمل کرنے کے امکانات شادی کے بعدبہت کم ہوجاتے ہیں۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ معیاری تعلیم تک رسائی نہ ہونابھی کم عمری میں جبری شادی کے امکانات بڑھاتا ہے۔ کم عمری کی شادی اور لڑکیوں کی معیاری تعلیم تک رسائی کی کمی دونوں کی جڑیں صنفی عدم مساوات کی طرف جا رہی ہیں۔اگر آج بھی اپنی سوچ میں تبدیلی نہ لائی اور ماضی کے رسم و رواج سے کنارہ کشی نہ کی تو مستقبل میں لڑکیوں کی تعلیم کا گراف اور نیچے جا سکتا ہے۔(چرخہ فیچرس)
