
دورِ حاضر میں سوشل میڈیا کی اہمیت بے شمار ہے۔ یہ ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر ایک ملک مکمل طور پر ترقی یافتہ نہیں ہو سکتا۔ سوشل میڈیا نے ہماری زندگیوں کے تمام پہلوؤں کو اثر انداز کر رکھا ہے اور اس کی بدولت ہم کسی بھی ملک میں رہنے والے انسان سے رابطہ کر سکتے ہیں اور مشکل سے مشکل کام آسانی سے حل کر سکتے ہیں۔ گھر بیٹھے بیٹھے پڑھائی اور دیگر چیزیں آسانی سے سیکھ سکتے ہیں۔ البتہ زندگی کی یہ آسانیاں بھی ایک قیمت کے ساتھ آتی ہیں۔ جیسے جیسے ہم سوشل میڈیا کا استعمال کرتے جا رہے ہیں، ہماری زندگیوں میں مختلف نقصانات کی شکایات بھی مرتب ہوتی جارہی ہیں۔ خاص طور پر نوجوانوں کے درمیان بہت ہی بْرے اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اس وقت ہندوستان میں 80 فیصد سے زیادہ تعداد میں نوجوان سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں اور سب سے زیادہ ہندوستان میں سوشل میڈیا کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ہندوستان میں سات گھنٹے سے زیادہ نوجوان سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں اور اس ضرورت کو عادت بنا چکے ہیں، سوشل میڈیا نوجوانوں کو ذہنی طور پر بیمار اور کمزور کرتا ہے جس پر سب کو غور و فکر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق جب نوجوان زیادہ وقت تک سوشل میڈیا کے ساتھ گزارتے ہیں تو ان کے دماغ پر برہمی کا اثر پڑتا ہے جس سے ان کے دماغ کی قابلیت کم ہوتی ہے۔ ان کی نیند کی معیار بھی آسانی سے متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ دن بھر نیند میں رہتے ہیں۔ اسکے علاوہ نوجوان ڈیپریشن کابھی شکار ہوتے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل کے نوجوان سوشل میڈیا کی زندگی کو اصل زندگی سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے اپنے ہی گھر والوں کو وقت نہیں دے سکتے اور یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ نوجوان اپنے والدین سے دور ہو رہے ہیں اْنہیں عزت نہیں دے رہے۔اس سلسلے میں سلمہ نامی ایک طالبہ کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ سوشل میڈیا کے بہت سے فائدے ہیں مگر ہم نے سوشل میڈیا کو ضرورت کے بجائے عادت بنا دیا ہے جو ہمیں دیمک کی طرح ختم کررہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اسے سوشل میڈیا کی اتنی عادت ہو چکی ہے کہ اسکا لگ بھگ سات گھنٹے سے زیادہ کا وقت موبائل پر ہی گزرتا ہے اور سب سے زیادہ موبائل پر سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ سوشل میڈیا کا ضرورت کے لیے استعمال کرتی تھی تو انکی صحت بہتر تھی اور ہر لحاظ سے کافی فعال تھی۔ مگر وقت کے چلتے یہ ضرورت کب عادت بن گئی ہے پتہ بھی نہیں لگا اور اسکی وجہ سے وہ ذہنی طور پر بہت پریشان رہنے لگی ہیں۔ جو نیند وہ سات گھنٹے لیا کرتی تھی اب وہ محض چار گھنٹے کی رہ گئی ہے اور اس وجہ سے پورا دن ان تھکاوٹ میں ہی گزرتاہے۔ اس کی وجہ سے اب وہ پڑھائی پر بھی غور نہیں کر سکتی۔اس نے یہ بھی کہا کے سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے پہلے وہ پڑھائی میں بہت تیز تھی لیکن اب وہ سوشل میڈیا کی وجہ سے پڑھائی پر زیادہ غور نہیں کر پاتی۔ ساتھ سلمہ نے یہ بھی کہا کہ آج کے دور میں لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو موبائل دیتے ہیں اور انھیں یہ لگتا ہے کہ انکے بچے چالاک ہورہے ہیں مگر اصل میں وہ اپنے بچوں کو بہت بڑی پریشانی میں ڈال رہے ہیں۔ سلمہ نے یہ کہا کہ سب نوجوان باخبر ہیں کہ سوشل میڈیا کس طرح اْنھیں ذہنی طور پر بیمار اور کمزور کر رہا ہے۔تب بھی وہ اس عادت سے باہر نہیں نکل پا رہے اور نہ نکلنا چاہتے ہیں کیو نکہ اْنھیں سوشل میڈیا کا نشہ ہو چکا ہے۔
اس متعلق ڈپارٹمنٹ آف انگلش، پونچھ ڈگری کالج کی پروفیسر ایشاکا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ سوشل میڈیا کے بہت فائدہ ہیں لیکن وہ فائدے کسی حد تک محدود ہیں جس عمر میں نوجوانوں کو اپنے مستقبل پر غور و فکر کرنا چاہیے اس عمر میں وہ سوشل میڈیا پر اپنا وقت ضایع کرتے ہیں۔ کالج کے نوجوانوں کو اتنے موبائل چلانے کی عادت پڑ گئی ہے کہ وہ کلاس کے وقت بھی موبائل چلاتے ہیں جس کی وجہ سے لیکچر پر غور نہیں کر پاتے۔ اس سلسلے میں ہم نے کالج میں موبائل کااستعمال کرنا بند بھی کروایا لیکن اسکے باوجود بھی بچے اس سے بچ نہیں پا رہے ہیں اور یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ پڑھنے والے بچے بھی اب پڑھائی میں کافی کمزور ہو چکے ہیں اور امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں۔اس متعلق جب میں نے زرینہ فاطمہ سے گفتگو کی جو اسکول میں پڑھتی ہیں اور گاڑی میں روزانہ سفر کرتی ہیں،کا کہنا ہے کہ انہوں نے دیکھا کے ایک عورت کی بیٹی جو تقریباً چار سال کی تھی، وہ بچی گاڑی میں بیٹھی تھی اور اسکی والدہ نے سفر کے دوران اسکے ہاتھ میں موبائل تھما دیا۔بچی انسٹاگرام پر ویڈیوز دیکھ رہی تھی اور بچی نے پورے دو گھنٹے کے سفر میں فون استعمال کیا آخر کار بچی کی آنکھوں سے موبائل زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے آنسوں آنے لگے۔ جب میں نے یہ ماجرا دیکھا تو میں نے بچی کی والدہ محترمہ سے کہا کہ آپ اپنی بچی سے موبائل لے لیجئے۔مگر بچی کی والدہ بولی کے موبائیل سے بچے ہوشیار ہوتے ہیں۔میں حیران ہوئی ایسی سوچ سے کہ کیسے ماں باپ اپنے بچوں کو ہوشیار بنانے کے چکر میں ان کی صحت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اس متعلق دو اسٹوڈنٹ آرزو اور روحین نے کہا کہ موبائل اور سوشل میڈیا کی ہمیں بہت بڑی عادت لگ گئی ہے۔جو کسی نشے سے کم نہیں۔آرزو اور روحین نے یہ کہا کہ وہ پنجاب یونیورٹی میں پڑھتے ہیں اور انکا کافی وقت پڑھائی کے لئے اور بات چیت کے لیے سوشل میڈیا اور موبائل پر گزرتا ہے۔روحین نے کہا کے جب انٹرنیٹ بند ہوا کچھ دن ہمیں بہت پریشانی ہوئی لیکن اسکے بعد ہم سب اپنا وقت موبائل اور سوشل میڈیا کی جگہ اصل زندگی میں استعمال کر رہے تھے اور ہمیں صحت اور دماغی لحاظ سے بہت اچھا اور آرام دہ محسوس ہورہا ہے۔ جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کے موبائل کے بنا زندگی بہت اچھی گزرتی ہے۔
ماہرین کا بھی خیال ہے کہ موبائل اور سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرنے سے انسان کو ذہنی طور پر بہت تھکاوٹ ہوتی ہے اور یہ ہمیں اصل زندگی سے بہت دور کر رہا ہے۔کسی بھی چیز کو خود پر حاوی نہیں ہونے دینا چائے کے وہ آپ پر اختیار کرنا شروع ہو جائے۔موبائل کی وجہ سے نوجوان اپنا مستقبل اور اپنی صحت خراب کر رہے ہیں جس پر ہم سب کو غور و فکر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ہمیں جتنا ہو سکے سوشل میڈیا کا کم استعمال کرنا چاہیے۔ ٹیکنالوجی کا مالک ہونا ٹھیک ہے، جو ٹھیک نہیں ہے وہ ٹیکنالوجی کی ملکیت ہونا ہے۔ ہوشیار رہیں کہ سوشل میڈیا کی منفی زندگی آپ کو تاریک سوچ کی طرف راغب نہ ہونے دیں۔ (چرخہ فیچرس)
