
آج جب پوری دنیا میںمسلمان ماہِ رمضان کی برکتوں اور خوشیوں سے فیضیاب ہورہے ہیں تو ایسے وقت میں چین کے سنکیانگ صوبے سے موصول ہونے والی اطلاعات آپ کا دل دہلادیتی ہیں۔ جب پوری دنیا میں مسلمان روزہ رکھ کر خداوندکریم کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، تو چینی حکام نے سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کے روزہ رکھنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
ریڈیو فری ایشیا (RFA) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، رمضان کے مقدس مہینے میں ایغورمسلمانوں کو روزہ رکھنے سے روکنے کے لیے، چینی پولیس جاسوسوں کا استعمال کر رہی ہے۔ مشرقی سنکیانگ ایغور خودمختار علاقے میں ترپن کے قریب واقع علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک پولیس افسر یا چینی زبان میں تلوفان کے ایک پولیس افسر کے مطابق، جاسوس جنہیں اکثر چینی حکام ’’کان‘‘ کہتے ہیں، باقاعدہ شہریوں، پولیس افسران اور اراکین پر مشتمل ہیں۔ ان کا کام ایغور مسلمانوں کے گھرو ں اور مساجد کی جاسوسی کرنا ہے۔
2017 میں چین نے سنکیانگ میں ایغوروں کو رمضان کے دوران روزہ رکھنے سے منع کرنا شروع کیا تھا، جب حکام نے ایغور ثقافت، زبان اور مذہب کو پسپا کرنے کی وسیع تر کوششوں کے ایک حصے کے طور پر انہیں ’’ری ایجوکیشن‘‘ کیمپوں میںبھیجنا شروع کردیا تھا۔ تاہم 2021 اور 2022 میں، پابندی میں جزوی طور پر نرمی کی گئی تھی، جس سے 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو روزہ رکھنے کی اجازت دی گئی تھی، اور پولیس نے گھروں کی تلاشی اور سڑکوں پر گشت کی سرگرمیوں کی تعداد کو کم کر دیا تھا۔لیکن آر۔ایف۔ اے۔ کی رپورٹ کے مطابق، ترپن سٹی پولیس سٹیشن کے ایک پولیٹیکل اہلکار نے کہا کہ حکومت نے اس سال ہر کسی کو روزہ رکھنے سے منع کر دیا ہے، چاہے وہ کسی بھی عمر، جنس یا پیشے سے تعلق رکھتا ہو۔’’رمضان میں کسی کو روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
چاروں طرف ’جاسوس‘:
افسران کے مطابق، ترپن کے پولیس اسٹیشنوں نے ہر گاؤں میں دو یا تین جاسوس معمور کیے ہیں، جن کا انتخاب ان لوگوں میں سے کیا گیا ہے جو اس سے پہلے پولیس کی حراست میں یا جیل میں قید کاٹ چکے ہیں اور ایغور زبان میں مہارت رکھتے ہیں۔ ایسا اس لیے کیا گیا ہے تاکہ پولیس اہل کار ان پر اور ان کی دی گئی رپورٹوں پر نظر رکھ سکیںاور وہ پولیس کے دباؤ میں کام کرسکیں۔
ایک پولیس افسر نے RFA کو بتایا کہ یہ ’کان‘ تین شعبوں سے آتے ہیں – عام رہائشی، پولیس اور محلے کی کمیٹیوں سے۔
’’میرے کام کی جگہ پر، 70-80 ایغور پولیس اہلکار ہیں جو یا تو براہ راست ‘کان’ کے طور پر کام کرتے ہیں یا دوسرے شہری کانوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ زبان کی رکاوٹ کی وجہ سے، ہم نے ایغوروں کو دوسرے ایغوروں کی نگرانی کے لیے بھرتی کیا ہے۔‘‘ اس پولیس افسر نے مزید کہا۔
حکام نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پولیس فورس کے درمیان جاسوس بھی لگائے تاکہ یہ نگرانی کی جا سکے کہ آیا ایغور افسران رمضان کے دوران روزہ رکھتے ہیں یا نہیں۔ اس سال کی پالیسی میں گھر کی تلاشی، سڑکوں پر گشت اور مسجد کی تلاشی بھی شامل ہے۔ گشت پر مامور حکام ایغور خاندانوں سے پوچھ گچھ کرتے ہیں کہ آیا وہ فجر سے پہلے کھانا کھا رہے ہیں اور غروب آفتاب کے بعد کھانے کے لیے جمع ہو رہے ہیں یا نہیں، جسے چینی حکام غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ ترپن سٹی پولیس اسٹیشن کے ایک پولیٹیکل اہلکار نے آر ایف اے کو بتایا، ’’جب ہم گھروں کی تلاشی لیتے ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ آیا وہ غیر قانونی مذہبی سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا نہیں اور کیا سیکورٹی کو کوئی خطرہ ہے یا نہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو معمولی جرائم کے لیے قانونی تعلیم اور سنگین جرائم کے لیے جیل کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے ۔
سنکیانگ صوبے کے ترپن سٹی پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار کے مطابق، اس بار مکمل پابندی کے بعد، چینی حکام نے 56 ایغور باشندوں اور سابق قیدیوں کو رمضان کے پہلے ہفتے میں ان کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھا۔ اس دوران پتہ چلا کہ ان میں سے 54 نے روزہ رکھ کر قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے مسلمانوں کو کیا سزا دی گئی یا ان کا کیا ہوا۔ اتنا ہی نہیں پولیس افسران نے بھی اس حوالے سے جانکاری دینے سے انکار کردیا۔ اہلکار کے مطابق ہر گاؤں میں تین جاسوس رکھے گئے ہیں، جو روزہ رکھنے والے یا حال ہی میں جیل سے باہر آنے والے لوگوں پر نظر رکھتے ہیں۔ یہ جاسوس عام شہری، پولیس اہلکار اور گاؤں کی کمیٹی کے ارکان ہوتے ہیں۔ ایغور مسلمانوں کے خلاف مظالم میں صدر شی جن پنگ کے دور حکومت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
درحقیقت، چین، جس نے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں ایغور باغیوں کو تقریباً ختم کر دیا ہے، اسلامی بنیاد پرستی کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے مذہب کو مکمل طور پر کنٹرول کر رہا ہے۔ اسلام کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز 2018 میں ہوا، جب چینی کابینہ نے مساجد اور مدارس میں عربوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے ایک خفیہ ہدایت منظور کی۔
اس کے بعد ان کی مذہبی شناخت کو مٹانے کے لیے لباس، خوراک، زبان سے لے کر ثقافت اور تاریخ تک ہر چیز کو مٹایا جا رہا ہے۔ مساجد کو مسمار کر دیا گیا، عربی پڑھنے پر پابندی لگا دی گئی، برقعہ پہننے اور نمازی ٹوپیاں پہننے پر پابندی لگا دی گئی۔
چین ایغور مسلمانوں کی آبادی کو کم کرنے کے لیے منصوبہ بند طریقے سے کام کر رہا ہے۔ چین صرف ایک شادی کی اجازت دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمان مردوں کی جبری نس بندی کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ ایغور خواتین کو معمول کے مطابق حمل کے ٹیسٹ کروانے اور اسقاط حمل کروانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ان کی بچہ دانی میں خفیہ آلہ لگا کر حمل کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کے شہر میلبورن سے شائع ہونے والے اخبار ’دی ہیرالڈ سن‘ نے سال 2021 میں انکشاف کیا تھا کہ چین ایغور مسلمانوں کے اعضا بھی اسمگل کر رہا ہے اور اس سے پیسے کما رہا ہے۔ ایغور مسلمانوں کے صحت مند جگر چینی کاروباری 1,60,000 ڈالر (1.20 کروڑ روپے) میں فروخت کرتے ہیں۔ اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ چین ایسے کاروبار سے 1 بلین ڈالر (7492 کروڑ روپے) ہر سال کما رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین کے حراستی مراکز میں جہاں ان ایغور مسلمانوں کو رکھا جا تاہے، ان کے اعضاء بھی زبردستی نکالے جاتے ہیں۔
سنکیانگ سے حاصل ہونے والی یہ رپورٹیں آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ کب عالمِ اسلام کے وہ قائدین جو اسلامی ممالک کے قائد ہونے کا دم بھرتے ہیں کب چین پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ ایغور مسلمانوں کے خلاف اپنا نارمل سلوک اور ان کا استحصال بند کرے۔اس ضمن میں امید بہت ہی کم ہے کیونکہ آج کے دور میں آپ کے معاشی فائدے آپ کے مذہبی یا سیاسی اصولوں پر سبقت رکھتے ہیں اور یہ عالمِ اسلام کے ساتھ بھی ہور ہا ہے۔
