ترجمہ وتلخیص: فاروق بانڈے
(نوٹ :رابن شرما ایک کینیڈین مصنف ہیں جو اپنی کتاب The Monk Who Sold his Ferrari کے لئے بہت مشہور ہوئے .شرما ہندوستانی نژاد ہیں۔ کتاب گفتگو کی شکل میں دو کرداروں، جولین مینٹل اور اس کے بہترین دوست جان کے ارد گرد تیار کی گئی ہے۔ جولین ہمالیہ کے سفر کے دوران اپنے روحانی تجربات بیان کرتا ہے جو اس نے اپنے چھٹی والے گھر اور سرخ فیراری بیچنے کے بعد کیا تھا۔اس کتاب کی اب تک 40 لاکھ سے زیاد ہ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔)
گزشتہ سے پیوستہ
یہ واقعہ صرف تین سال پہلے کا ہے۔ آخر دفعہ میں نے سنا کہ جولین کسی مہماتی سفر پر ہندوستان روانہ ہوا تھا۔ اس نے اپنے ایک شراکت دارساتھی سے کہا تھا کہ وہ سادہ زندگی گزارنا چاہتا ہے اور اپنے کچھ سوالات کے جوابات بھی چاہتا ہے اوراسے امیدہے کہ وہ اسے اس پراسرار ملک کی سرزمین پر تلاش کر لیں گے۔ اس نے اپنا گھر، اپنا جہاز اور اپنا ذاتی جزیرہ بھی بیچ دیا۔ اس نے اپنی فراری بھی بیچ دی۔’ ‘جولین مینٹل ایک ہندوستانی یوگی کے روپ میں تھا‘‘۔ میں نے سوچا، قوانین قدرت بہت پراسرار طریقے سے کام کرتے ہیں۔”
اب آگے
جیسے جیسے وہ تین سال گزرے، میں ایک زیادہ کام کرنے والے نوجوان وکیل سے ایک تھکا ہوا، کچھ چڑچڑا،بوڑھا وکیل بن گیاتھا۔ میری بیوی جینی اور میرا ایک خاندان تھا۔اب میں بھی زندگی کے معنی تلاش کرنے لگا۔ شاید یہ بچوں کی وجہ سے ہوا۔ انہوں نے بنیادی طور پر میرے دنیا کو دیکھنے اور اس میں اپنے کردار کے انداز کو بدل دیا۔ میرے والد نے صحیح کہا تھا، ”جان، بستر مرگ پر آپ کبھی بھی دفتر میں اپنا زیادہ وقت گزارناپسند نہیں کریں گے.” اس لیے میں نے گھر میں تھوڑا زیادہ وقت گزارنا شروع کیا۔ میں اچھے ،عام طریقے سے جی رہا تھا۔ میں نے روٹری کلب جوائن کیا۔ میں اپنے پارٹنرز اور گاہکوں کو خوش رکھنے کے لیے ہفتہ کو گولف کھیلتا تھا۔ لیکن میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اپنے پرسکون لمحات میں، میں اکثر جولین کے بارے میں سوچتا تھا اور سوچتا تھا کہ جولین کے ساتھ کیا ہوا ہوگا جب سے ہم اچانک الگ ہوگئے ہیں۔
شاید وہ ہندوستان میں آ کر آباد ہو گیا تھا۔ ہندوستان ایک متنوع جگہ تھی جہاں اس جیسا بے چین روح والا شخص بس سکتا تھا یا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ پیدل سفر کر کے نیپال جا رہا ہو۔ سکوبا سیپینز میں غوطہ لگا تا ہو؟ ایک بات تو طے تھی کہ وہ قانونی پیشے میں واپس نہیں آئے۔ جب سے وہ قانون سے ریٹائر ہوئے ہیں، انہوں نے کسی کو پوسٹ کارڈ تک نہیں بھیجا تھا۔
تقریباً دو مہینے پہلے دروازے پر دستک نے میرے کچھ سوالات کا جواب دیا۔ اس تھکا دینے والے دن میں ابھی اپنے آخری گاہک سے ملا تھا جب میرا عقلمند قانونی معاون جینیویو میرے چھوٹے سے خوبصورتی سے بھرپور دفتر میں آئی اور کہا، ”جان، کوئی آپ سے ملنے آیا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ ملاقات بہت ضروری ہے اور وہ اس وقت تک نہیں جائے گا جب تک وہ آپ سے بات نہیں کرتا‘‘
میں نے بے صبری سے جواب دیا، ”جینیویو، میں ہیملٹن کیس کا بریف تیار کرنے سے پہلے کچھ کھانے کے لیے باہر جا رہا ہوں۔ ابھی میرے پاس کسی سے ملنے کا وقت نہیں ہے۔ اس سے کہو کہ ہر کسی کی طرح ملنے کے لیے پہلے وقت تعین کریں، اور اگر وہ پھر بھی آپ کو پریشان کرتا ہے تو سکیورٹی گارڈ کو کال کریں۔”
”لیکن وہ کہتا ہے کہ اسے واقعی تم سے ملنا ہے۔ وہ کوئی جواب سننے کو تیار نہیں۔‘‘
ایک لمحے کے لیے میں خود سکیورٹی گارڈ کو بلانے کے لیے تیار تھا، لیکن یہ سوچ کر کہ شاید وہ واقعی کسی مشکل میں نہ پڑے، میں نے قدرے معاف کرنے والا طریقہ اپنایا،”ٹھیک ہے اسے اندر بھیج دو۔ ‘‘ میں اپنے رویے سے کنارہ کش ہوا۔’’میں شاید اسے کاروبار میں کسی طرح استعمال کرنے کے قابل ہو سکتا ہوں۔”
میرے دفتر کا دروازہ آہستہ سے کھلا۔ پھر پوری طرح کھل گیا اور اسکے پیچھے تیس کی دہائی کے درمیانی عمر کا ایک مسکراتا آدمی نظر آیا، وہ ایک لمبے لمبے قد،دبلاپتلا مضبوط اور، خوب صورت جسم کا مالک تھا ، اس کا چہرہ جوش و خروش اور توانائی سے چمک رہا تھا۔ اس نے مجھے وہ ان نوجوان ساتھیوں کی یاد دلائی جن کے ساتھ میں لاء اسکول گیا، جو اچھے گھرانوں سے آئے، جن کے گھر اعلیٰ درجہ کے تھے، اعلیٰ درجہ کی کاریں تھیں اور بہترین جلد تھی۔
لیکن میرے اس مہمان کے پاس جوانی کی خوبصورتی سے زیادہ کچھ تھا۔ اس کے امن سے چھلکتے ہوئے پُرسکون چہرے س پر جسے کسی نور کی موجودگی ہو۔اور اس کی آنکھیں،
چھیدنے والی نیلی آنکھیںجو مجھے اسی طرح چھیدتیں تھیں جیسے ایک تیز استرا جوپہلی بار شیو کرنے والے فکرمند نوجوان کی ملائم جلد کو چھو تا ہے۔
”ایک اور دبنگ وکیل جو میری جگہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے”، میں نے اپنے آپ سے سوچا۔ ” کیا مسئلہ ہے ۔ وہ وہاں کھڑا میری طرف ایسے کیوں دیکھ رہا ہے، کیا یہ اس عورت کا شوہر ہے جس کی طرف سے میں نے گزشتہ ہفتے طلاق کے کیس میں دلائل دیے اور جیت گیا۔ اگر یہ وہی ہے، تو یہ سیکورٹی گارڈ کو کال کرنے کا خیال احمقانہ نہیں تھا۔’
وہ نوجوان میری طرف اسی طرح دیکھتا رہا جس طرح مسکراتے بدھا نے اپنے عزیز شاگرد کو دیکھا ہوگا۔ کافی دیر تک ایک تکلیف دہ خاموشی کے بعد اس نے عجیب تحمکانہ لہجے میں کہا، ’’ کیاآپ مہمانوںکے ساتھ ایساہی برتاؤ کرتے ہو، یہاں تک کہ ان لوگوں کے ساتھ بھی جنہوں نے آپ کو عدالت میں کامیاب ہونے کے سبھی گُر سکھائے؟ مجھے اپنی کاروباری راز کو اپنے پاس رکھنا چاہیے تھا۔” اس نے اپنے ہونٹوں کو عجیب طرح سے ہلاتے ہوئے کہا۔
میرے پیٹ میں ایک عجیب سی گدگدی ہوئی۔ میں نے فوراً اس تیز،شہدجیسی میٹھی آواز کو پہچان لیا۔ میرا دل دھڑکنے لگا۔
”جولین؟ کیا یہ تم ہو؟ مجھے یقین نہیںہو رہا ہے! کیا واقعی یہ تم ہو؟”
مہمان کے زور دار قہقہے نے میرا شک درست ثابت کر دیا۔ میرے سامنے کھڑا نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ گمشدہ ہندوستانی یوگی جولین مینٹل تھا۔ میں اس کی ناقابل یقین تبدیلی پر حیران رہ گیا۔ میرے سابق ساتھی کی بھوت جیسی رنگت، بیمار جیسی کھانسی اور بے جان آنکھیں غائب ہو گئی تھیں۔ اس کی بوڑھی شخصیت او ر ضعیفانہ اظہار، جو اس کی ذاتی پہچان بن چکی، غائب ہو چکی تھی۔
اس کے بجائے، میرے سامنے کھڑا شخص بالکل صحت مند تھا اور اس کا جھریوں سے پاک چہر ہ دمک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں جو اس کی غیر معمولی طاقت کا روشندان ظاہر ہوتی تھیں۔ شاید اس سے زیادہ حیران کن وہ سکون تھا جو جولین سے ظاہر ہوتاتھا ۔ میں وہیںبیٹھ کر مکمل سکون محسوس کرکے اسے دیکھتا رہا ۔ اب وہ ایک بڑی قانونی فرم کے پریشان سینئر ”ٹائپ اے” وکیل نہیں تھے۔ اس کے بجائے میرے سامنے کھڑا شخص جوانی اور طاقت سے بھرا ۔۔ تبدیلی کا نمونہ تھا۔
جاری