تحریر:خالد بشیر احمد
اگلے وقتوں میں ایک صحافی کو خبر حاصل کرنے میں بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ کئی کئی دنوں تک خبر کے تعاقب میں بھاگ دوڈ کرنا پڑتی تب جاکرکوئی ایک خبر حاصل ہوتی ۔ہم نے اپنے سینئر اور ہم عمر صحافیوں کو خبروں کے حصول اور ترسیل میں دردِ زہ کی سی سختیوں سے گزرتے ہوۓ دیکھا ہے۔
پہلے خبریں شریف خاندانوں کی خواتین کی طرح سات پردوں میں چُھپی رہتی تھیں اور انہیں ڈھونڈھ نکالنا پڑتا۔ اب بے پردگی کا وہ دور ہے کہ کہیں سے بھی کوئ بندہ کیمرہ لۓ گزرتا ہے تو آناََ فاناََ "آج کی سب سے بڑی خبر نکل کر” سامنے آتی ہے۔ اُن دنوں کوئی ایکسکِلیوسِو خبر شاذ ہی دستیاب ہوا کرتی۔ آجکل جو یہ ہر پانچ منٹ کے بعد سماعتوں اور بصارتوں کے پردے چاک کرتی ہوئی "بریکنگ نیوز” آپ کے سامنے پیش کر دی جاتی ہے ایسا کوئی جھنجٹ تھا ہی نہیں۔ کسی زمانے میں وہ جو عام خبریں ہوا کرتی تھیں وہ کب کی پیا گھر سِدھار گئیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ ہماری کیمرہ بردار نئی نسل نے (مین اسٹریم ہندی نیوز چینلز سے مستعار لےکر) اردو صحافت میں ایسےکئی فقرے متعارف کراۓ ہیں جن میں وبائی اثرات پاۓ گۓ ہیں اور جن کے بغیر اب اِن نوجوانوں کا گزارہ ہی نہیں۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ ویڈیو کے شروع ہوتے ہی ایک نوجوان بصد مشکل اپنی سانسوں پر قابو پاتے ہوۓ تقریبا” سراسیمگی کی حالت میں پھوٹ پڑتا ہے:
۔”ناظرین اگر ہم بات کریں تو "۔
اچھے بچے آپ تو کیمرہ کے سامنے آۓ ہی ہو بات کرنے پھر یہ تکلّف کس بات کا؟ اور بالفرضِ محال ہم اجازت نہ دیں تو کیا آپ رُکنے والے ہیں؟
خبر کوئی بھی ہو اِن کو بات "کُل ملاکر” ہی کرنی ہے۔ بصورتِ دیگر احتمال یہ ہے کہ بات ادھوری رہ جاۓ گی اور وہ کچھ کہیں اور آپ کچھ اور سمجھ لیں۔۔ ان کے جوشِ خطابت میں اُردو زبان کی جو ایسی کی تیسی ہورہی ہے وہ ایک الگ معاملہ ہے۔ عروسِ اُردو کے پیراہنِ میں یہ حضرات جو گُل بوٹے کاڑھتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ تذکیر وتانیث اور واحد و جمع کے تکّلفات سے بے نیاز جو گوہرافشانی کی جاتی ہے اُسے سُن کرآپ کے قلبِ معصوم کو جن "حالاتوں” سے گزرنا پڑتا ہے اُنہیں "جذباتوں” کے رنگ میں پیش کرنا خاصا دشوار ہے۔ خبر کے حوالے سے ان کا جو "ہمارا یہ مانناہے” ضروری نہیں کہ ایسا ہی آپ کا بھی ماننا ہو۔
خیر ان نونہالوں کا ذکر ہی کیا پڑوسی ملک’ جہاں کی قومی زبان اُردو ہے’ کے حالات بھی مختلف نہیں ۔ وہاں کے مین اسٹریم میڈیا یا یوٹیوب نشریات کے ساتھ پیش کۓ جانے والے ٹِکرس اُردو گرائمر اور زبان کی ایسی ٹھیٹھ بے حرمتی کرتے ہیں کہ الحفیظ و الامان!
آج کی نوجوان نسل عجلت میں ہے اور ہمارے یوٹیوب نیوز کاسٹرس دوہری عجلت میں دکھائی دیتے ہیں۔ خبر کی نشریات جو توّقف اور بے عجلتی چاہتی ہے یہ اُس سے بے نیاز ہیں۔ ان کے پاس جو خبر ہوتی ہے اُسے ناظرین کی دہلیز پر فوری انڈھیلنے کی جلدی میں یہ اکثر اوقات خود بھی گھبراۓ ہوۓ ہوتے ہیں اور اس گھبراہٹ کو کئی فیصد بڑھا کر ناظرین تک منتقل کرنے میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ اس کی مثال حالیہ بارشوں سے متعلق رپورٹِنگ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دوران دریاۓ جہلم نے اپنی گزرگاہ میں کسی مقام پر بھی فُلڈ لیول کو نہیں چُھوا۔ پار کرنا تو دور کی بات ہے۔ صرف دو گیج سائٹس یعنی پانپور اور منشی باغ میں ایک مختصر وقت کے لۓ پانی کی سطح فُلڈ لیول سے نیچے الارم یا ڈینجر لیول یعنی خطرے کی سطح کو چُھوگئ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگ سیلاب کے امکانی خطرے سے ہشیار رہیں مگر "پل پل کی نشریات” والوں نے اپنی متواتر لفظی گولہ باری سے پوری وادی کو ہیجانی کیفیت سے دوچار کردیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آنکھ جھپکی اور ‘شہر کو سیلاب لے گیا’۔
ایسا نہیں کہ ہمارے یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہے۔ کچھ قابلِ قدر اِستثناء بھی ہیں جو تحسین کی مستحق ہیں خصوصا” وہ جو مختلف خبریاتی اداروں سے وابستہ ہیں۔ مسٔلہ اُن جہاں گرد کیمرہ برداروں کا ہے جو اچانک کسی بھی گزرتے ہوۓ یا کھڑے ہوۓ شخص سے سوال پوچھنے کے لۓ ایسے مائکرو فون آگے کردیتے ہیں جیسے دوران ِ چِلّم کشی کوئ چرسی اپنے ساتھی کی طرف چِلّم بڑھاتا ہے۔ آگے جو گفتگو ہوتی ہے وہ فنونِ لطیفہ کی ایک الگ صنف ہے۔