تحریر:ریٔس احمد کمار
اردو زباں و ادب کی ترویج و ترقی کے حوالے سے جو رسالے اور جریدے ملک میں تواتر کے ساتھ چھپتے رہتے ہیں ان میں سرونج ایم پی سے شائع ہونے والا سہ ماہی انتساب عالمی قابل فہرست ہے ۔ انل اگروال کی سرپرستی ، ڑاکٹر سیفی سرونجی کی نگرانی ، آفاق سیفی و استوتی اگروال کی ادارت میں شایع ہونے والا یہ رسالہ ملک کے ہر کونے میں رہنے والے اور اردو سے الفت رکھنے والوں کی طرف سے مسلسل داد و تحسین حاصل کرتا رہتا ہے ۔ اس رسالے کا اکتوبر ٢٠٢٣ تا مارچ ٢٠٢٤ تک کا شمارہ بھی گزشتہ شماروں کی طرح ادبی حلقوں میں کافی پزیرائی حاصل کرچکا ہے ۔ یہ شمارہ ٢٧٦ صفحات پر مشتمل ہے جس میں کل ١٧ مضامین ، ١٦ منظومات ، ١٣ افسانے و افسانچے ، ایک کہانی ، تین تراجم ، ایک آپ بیتی ، ایک سفرنامہ ، دو تبصرے وغیرہ شامل کۓ گۓ ہیں ۔ سیفی سرونجی صاحب نے مختلف کتابوں اور مصنفین کے بارے میں جو راۓ ظاہر کی ہے وہ اس شمارے کے پہلے بارہ صفحات پر دیکھی جاسکتی ہے ۔ انہوں نے جن کتابوں پر بات کی ہے وہ یوں ہے ۔۔ ز ویہ نگاہ، ورق ورق نیا آہنگ ، مکان سے لامکاں تک، ہمارا شعری و نثری ادب، منظر منظر زندگی ، من میں جمی برف ، یہ کلکتہ ہے، کل اور آج کا غم وغیرہ ۔ سیفی سرونجی صاحب کا زبان و بیان پر مکمل عبور حاصل ہے اور کسی بھی کتاب کا مطالعہ بڑی گہرائی سے کرتے ہیں اور بعد میں جو راۓ اخذ کرتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہوتی ہے جیسا کہ ہمیں ان کتابوں پر ان کی قائم کردہ رائے و تبصروں کو پڑھ کر پتہ چلتا ہے ۔ کوثر صدیقی کے شہر اقبال کے فرزانے پر عبدالحق نے نہایت ہی خوبصورت اور مدلل مضمون لکھا ہے ۔ بقول عبدالحق زیر نظر اقبال کی ١٤ نظموں کے ترجمہ کا مسودہ بہت دلکش اور خیال افروز ہے۔ ترجمہ سادہ ہے اور علامہ کے الفاظ کے کثرت استعمال سے ترجمہ کو تخلیق سے قریب تر کردیا ہے ۔ کرم یوگی : کشمیری لال زاکر _ ایک اور خوبصورت مضمون اس شمارے کا حصہ ہے جو رینو بھل نے تحریر کیا ہے۔ زاکر کی حالات زندگی و ان کے ادبی کارناموں پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے رینو بھل لکھتے ہیں زاکر صاحب نے ادب کی کم و بیش سبھی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے مثلاً افسانہ ، ڑرامہ ، ناول ، ناولٹ، سفرنامہ ، شاعری وغیرہ ۔ مگر افسانہ انکی محبوب صنف تھی ۔ مشتاق صدف نے ایک بہترین، دلنشین اور طویل مضمون بعنوان “تاجکستان میں اردو اور ہندی کا منظرنامہ” تحریر کیا ہے جس میں مضمون نگار نے تاجکستان کی تاریخ، ثقافت اور تہزیبی و تمدنی حالات کی کھل کر عکاسی کی ہے ۔ سلیس اور آسان زبان میں لکھی گئ یہ تحریر قاری کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے۔ اس مضمون میں بھارت اور تاجکستان کے درمیان لسانی ، تہزیبی ، ثقافتی ، سماجی ، معاشرتی اور سیاسی رشتوں کے حوالے سے بھی بات کی گئ ہے۔ ڑاکٹر شفیع ہدایت قریشی کے بارے میں وقار صدیقی کا مضمون بھی اس شمارے کا حصہ ہے جس میں مضمون نگار نے بہترین انداز میں ان کی حالات زندگی و ادبی کارناموں پر مفصل روشنی ڈالی ہے ۔ بقول مضمون نگار شفیع قریشی ایک پختہ کار شاعر ہیں ۔ ان کے اب تک تین شعری مجموعے ‘ن’ ، قلم کا ترجمان اور گلدستے میں ناگ پنی’ منظر عام پر آ چکے ہیں ۔ ‘ناصر بغدادی بحیثیت نقاد’ یہ مضمون معروف مصنفہ و ادیبہ قرت العین فاطمہ نے لکھا ہے ۔ اس شمارے کا یہ سب سے طویل مضمون ہے جس میں مضمون نگار نے ان کی شاندار ادبی خدمات کو اجاگر کیا ہے۔ بادبان کے شماروں میں ان کے تحریر کردہ اداریوں کے بارے میں انھوں نے خوب لکھا گیا ہے جس میں ناصر بغدادی کی شخصیت اور فن کی عکاسی کی گئی ہے ۔ شبانہ نکہت انصاری کا مضمون “آزاد کا پیغام نئی نسلوں کے نام” ایک بہترین تخلیق ہے جو اس شمارے میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔ بقول مضمون نگار چڑیا چڑنے کی کہانی مزکورہ خطوط کے مجموعے میں شامل ہے۔ یہ موصوف کی آپ بیتی ہے مگر دراصل نئی نسل کے لئے جگ بیتی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کہانی کو آزاد نے قلعہ احمد نگر کی جیل میں ١٧/١٨ مارچ ١٩٤٣ء میں خط کے روپ میں تحریر کیا تھا ۔ غبار خاطر مولانا ابوالکلام آزاد کی بڑی اہم اور زندگی کی آخری تصنیف ہے جو انھوں نے تنہائی میں تحریر کی ہے جب ان سے ملنے پر مکمل پابندی عائد تھی۔ انتساب عالمی کے اس خوبصورت شمارے میں مضامین کے علاوہ کئی شہکار منظومات بھی قارئین کے لئے بطور تحفہ شامل کئے گئے ہیں ۔ فکشن کے حوالے سے اگر بات کریں گے تو اس شمارے میں شامل افسانے و افسانچے شاندار اور جاندار نظر آتے ہیں۔ جموں وکشمیر کے فکشن کا بے تاج بادشاہ نور شاہ کے دو مختصر افسانے ‘تنہائی کا کرب اور انفکشن’ سے شمارے کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔ تنہائی کس قدر ایک انسان کو بڑھاپے میں ستاتی ہے کہانی میں اس کی خوب عکاسی کی گئی ہے ۔ دوسری کہانی انفکشن میں نور شاہ صاحب نے دور حاضر کے ڑاکٹروں کے وطیروں کی خوب خبر لی ہے جو مریضہ کی بیماری پر کم بلکہ اس کی جسمانی خوبصورتی پر زیادہ توجہ دیتے ہوئے اپنا عزت و وقار منٹوں میں تیمارداروں کے سامنے کھو بیٹھتے ہیں۔ شمارے کا ایک اور دلکش افسانہ ‘وہ چار جیل جانے والے’ شہناز خانم عابدی نے تخلیق کیا ہے ۔ موصوفہ کا اندازہ بیاں بالکل منفرد اور بے مثال ہے ۔ ان کی کہانیوں میں افسانوی رنگ خوب جھلکتا ہے اور موضوع کو قاری تک پہنچانے میں وہ کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ وکیل نجیب کا افسانہ اسکرپٹ رائٹر ایک جداگانہ انتخاب ہے جو سلیس زبان میں ایک بڑے موضوع کو پیش کررہا ہے ۔ ف- س ۔اعجاز کا افسانہ بول ہری کرونا کے دور کا رویداد سناتا ہے جب ہر مظبوط سے مظبوط تر شخص بھی اس کمزور شخص سے ڑر محسوس کررہا تھا جو کرونا کا شکار بن جاتا تھا ۔ ساجد پریمی کا افسانچہ چترائی ایک بیوہ عورت کی دکھ بھری زندگی کا گویا داستان سنارہا ہے جسے اپنی چھوٹی بیٹی کی باتیں اندر ہی اندر کھوکھلی کرتی جارہی تھیں ۔ خاکسار کا افسانچہ “الگ گھر” بھی شامل شمارہ ہے جو میں نے سرمائی چھٹیوں میں تحریر کیا تھا ۔ عظیم اثر کے دو پرمغز اور پراثر افسانچے “بس سے باہر” اور “آدھا گھنٹہ” اس شمارے کے دو آخری افسانوی کہانیاں ہیں جو جاندار بھی ہیں اور شاندار بھی ۔ ‘میں تمہیں بتا نہیں سکتا تھا’ کہانی جان فو سے نے تخلیق کی ہے جس کا بہترین اور خوبصورت ترجمہ استوتی اگروال نے کیا ہے. استوتی اگروال کہانیاں اور مضامین لکھنے میں پہلے ہی مہارت حاصل کرچکی ہے لیکن اس کہانی کو پڑھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان میں ایک بہترین ترجمہ کار چھپا ہوا ہے۔ اسی لگن اور ولولے کے ساتھ محنت جاری رہی تو مستقبل قریب میں وہ ایک بہترین ترجمہ کار کی حیثیت سے اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں کامیاب نظر آئے گی۔ انتساب عالمی کے اس خاص شمارے کے تمام مضامیں ، منظومات ، افسانے و افسانچے اور تراجم پڑھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ رسالہ ملک کے معتبر اور منفرد رسالوں میں سے ایک ہے جو اردو زباں و ادب کی ترویج اور ترقی میں دن رات محنت کرنے میں محو پرواز ہے ۔ سیفی سرونجی صاحب اور استوتی اگروال واقعی تعریفوں اور دادو تحسین کے مستحق ہیں جو اردو زباں و ادب کی خدمت اپنے خون جگر سے مسلسل کررہے ہیں ۔ میری زاتی راۓ ہے کہ اردو بولنے والے اور اردو سے لگاؤ رکھنے والے لوگ اس رسالے کے شماروں کو ضرور حاصل کرکے استفادہ حاصل کریں کیونکہ اس رسالے کے شماروں میں معیاری اور دلکش مضامین ، افسانے اور شاعری قارئین کو محظوظ کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے ۔