ترجمہ وتلخیص۔ فاروق بانڈے
(نوٹ :ہندوستانی نژاد رابن شرما ایک کینیڈین مصنف ہیں جو اپنی کتاب The Monk Who Sold his Ferrari کے لئے بہت مشہور ہوئے ۔ کتاب گفتگو کی شکل میں دو کرداروں، جولین مینٹل اور اس کے بہترین دوست جان کے ارد گرد تیار کی گئی ہے۔ جولین ہمالیہ کے سفر کے دوران اپنے روحانی تجربات بیان کرتا ہے جو اس نے اپنے چھٹی والے گھر اور سرخ فیراری بیچنے کے بعد کیا تھا۔اس کتاب کی اب تک 40 لاکھ سے زیاد ہ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔)
گزشتہ سے پیوستہ
میں آپ کو صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ اس گاؤں کے لوگ انہیں ‘سیوانہ کے عظیم سنت’ کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کے پرانک ادب میں ‘شیوانہ’ کے معنی ”اعلیٰ ترین علم حاصل کرنے کی جگہ” ہے۔ ان سنتوں کا احترام دیوتاؤں کی طرح کیا جاتا ہے۔ اگر میںیہ جانتے ہوئے کہ وہ کہاں ملیں گے، میرا فرض تھا کہ آپ کو وہ جگہ بتاتا۔
لیکن سچ پوچھیں تو میں اس کے بارے میں نہیں جانتا اور نہ ہی کوئی جانتا ہے۔”
اب آگے
اگلی صبح جب ہندوستانی سورج کی کرنیں رنگین افق پر رقص کرنے لگیں تو جولین ‘شیوانہ’ کی سرزمین کو تلاش کرنے کے لیے سفر پر نکلا۔ پہلے تو اس نے پہاڑوں پر چڑھتے وقت اس کی رہنمائی کے لیے ایک گائیڈکو اپنے ساتھ لے جانے کا سوچا، لیکن کسی نامعلوم وجہ سے، اس کی جبلت نے اسے کہا کہ یہ ایک ایسا صفر ہے جو اسے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس لیے شاید زندگی میں پہلی بار اس نے استدلال کی زنجیریں توڑ کر اندرونی وجدان پر یقین کیا۔ اسے لگا کہ وہ محفوظ رہے گا۔ اسے کسی نہ کسی طرح یہ تاثر ملا کہ وہ جس چیز کی بھی تلاش کر رہا ہے، وہ اسے ملے گا۔ لہذااپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جوش و خروش کے ساتھ اس نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا۔
پہلے چند دنوں تک چڑھائی آسان تھی۔ کبھی کبھی اس کی ملاقات نیچے گاؤں کے خوش حال شہریوں سے ہوتی تھی، جو شاید نقش و نگار کے لیے صحیح لکڑی کی تلاش میں ان پکڈنڈیوں سے گزرتے تھے، یا ایسے لوگ جو اتنی بلندی پر کوئی روحانی پناہ گاہ تلاش کرنے کے لیے اس جگہ کا ہمت والا سفر کر رہے تھے۔ دیگر اوقات میں وہ اکیلے پیدل سفر کر رہا ہوتا تھا اور وہ اس وقت کو سکون سے سوچنے کے لیے استعمال کر رہا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں کہاں تھا اور اب کہاں جا رہا ہے۔
اس میں زیادہ وقت نہیں لگا جب نیچے وہ گاؤںقدرتی شان و شوکت کے شاندار پردے پر کچھ دیر بعد ایک چھوٹے سے دھبے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ہمالیہ کے پہاڑوں کی برف پوش چوٹیوں کی شان و شوکت نے اس کے دل کی دھڑکن تیز کر دی ۔ ایک لمحے کے لیے اس کی سانسیں رک گئیں۔ اسے اپنے اردگرد کے ماحول سے یگانیت کا احساس ہوا، ایسا تعلق جیسے دو پرانے دوست کئی برسوں بعد ایک دوسرے کی بات سنیں اور ایک دوسرے کے لطیفے سن کر ہنسے کے بعد لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پہاڑوں کی تازہ ہوا نے اس کے ذہن کو صاف کیا اور روح کو توانائی بخشی۔ کئی بار دنیا کا سفر کرنے کے بعد جولین سوچتا ہے کہ اس نے ساری دنیا دیکھ لی تھی،لیکن ایسا قدرتی حسن اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس جادوئی لمحے میں جس حیرت نے اسے متاثر کیا وہ تھا گویا قدرتی موسیقی کے لیے اس کا شاندار خراج تھا۔ اس نے فوراً خوشی، مسرت اور پریشانیوں سے آزادی محسوس کی۔
یہاں انسانیت سے بہت اوپر، جولین آہستہ آہستہ خول سے باہر آیا اور غیر معمولی دائرے کو تلاش کرنا شروع کیا۔
جولین نے کہا، ’’مجھے وہ الفاظ اب بھی یاد ہیں جو اس وقت میرے ذہن میں تھے۔ میں نے سوچا کہ بلآخر زندگی کا انحصار اپنے فیصلوں پرہوتا ہے، کسی کی تقدیر اس کے لیے گئے فیصلوں پر ہوتا ہے اور میں نے محسوس کیا کہ میں نے جو فیصلہ کیا وہ درست تھا۔ میں جانتا تھا کہ میری زندگی پہلے جیسے نہیں ہو سکتی ہے اور یہ کہ کچھ حیرت انگیز، یا معجزاتی، میرے ساتھ ہونے والا ہے۔ یہ ایک حیران کُن بیداری تھی۔”
جولین نے مجھے بتایا، ”میری بے چینی بڑھ گئی جب میں ہمالیہ کے نامعلوم علاقے پر چڑھا، لیکن یہ بے چینی ویسی ہی تھی جب میں کسی بھی اشتعال انگیز کیس کے شروع ہونے سے پہلے رات کوہوتی تھی یا کیس شروع ہونے سے پہلے جب میڈیا عدالت کی سیڑھیوں پر میرا پیچھا کر رہا ہوتاتھا۔ اور اگرچہ میرے پاس نہ تو کوئی گائیڈ تھا اور نہ ہی اس جگہ کا نقشہ، راستہ صاف تھا۔ ایک تنگ پکڈنڈی،جس پر بہت کم لوگ چلے تھے ،مجھے ان پہاڑوں کے پراسرار اونچے علاقے میں لے گئے۔ایسا لگتا تھا جیسے میرے پاس ایک اندرونی کمپاس تھا، جو اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ میں اپنے مقصد تک پہنچ گیا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں اپنی چڑھائی کو روکنا چاہتا تو بھی نہیں روک سکتا تھا۔ جولین کے الفاظ بارش کے بعد پہاڑی ندی سے نکلتے پانی جیسے لگ رہے تھے ۔
اس نے مزید دو دن اسی راستے پر سفر کیا اور دعا بھی کی کہ وہ سیوانہ پہنچ جائے۔ اس دوران وہ اپنی گزشتہ زندگی کے بارے میں سوچتا رہا۔ اگرچہ وہ اپنی پچھلی زندگی کے تناؤ اور دباؤ سے مکمل طور پر آزاد محسوس کرتے تھے، لیکن پھر بھی وہ سوچتے تھے کہ کیا وہ واقعی اپنے بقیہ دن اس فکری چلینج کے بغیر گزار سکتا ہے ہارورڈ لا اسکول چھوڑنے کے بعد قانونی پیشے نے دئے تھے۔اس کے خیالات پھر بھٹک گئے۔ اس کے بعد وہ چمکتے شہر میں ایک فلک بوس عمارت میں اپنے دفتر کے بارے میں سوچنے لگا اور اس موسم گرما چھٹیاں گزارنے کے لیے گھر کے بارے میں جو اس نے بہت کم قیمت پر فروخت کیا تھا۔ وہ اپنے پرانے دوستوں کے بارے میں سوچنے لگا جن کے ساتھ وہ اکثر پرتعیش جگہوں کے بہترین ریستوراں میں جاتا تھا۔ اس نے اپنی سب سے پیاری قیمتی کار فراری کے بارے میں بھی سوچا، جب وہ اس نے چابی گھماتا تو اس کا انجن کی زرو دارھاڑ سے چلنے سے اس دل کیسے اچھلتا تھا۔اس پراسرار ناقابل رسائی جگہ کی طرف جرأت مندانہ سفر کرتے ہوئے ماضی کے خیالات اس کے دماغ میں دوڑ رہے تھے۔ لیکن اُس وقت ایک حیران کن معجزے سے ان میں خلل پڑا۔
جب وہ قدرتی یکسانیت کی عطا سے مغلوب تھا، کچھ چونکا دینے والا ہوا۔ اپنی آنکھوں کے نچلے حصے سے اس نے ایک اور شخصیت کو دیکھا، جس نے ایک سرخ لمبا لہراتی لباس پہنا ہوا تھا، جس کی گردن اور سر گہرا نیلا تھا، اور اسی راستے پر اس سے تھوڑا آگے جا رہا تھاجس ویران جگہ تک پہنچنے میں جولین کوسات وحشیتناک دن لگے تو وہ کسی اور کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ جولین انسانی تہذیب سے میلوں دور تھا اور ‘ ابھی تک کہیں معلوم نہیں تھا کہ شیوانہ’ کی آخری منزل کہاں ہے، اس نے اپنے ساتھی مسافر کو پکارا۔
اس شخص نے جولین کی پکار کا جواب نہیں دیا اور جس راستے سے وہ دونوں چڑھ رہے تھے اس نے اپنی رفتار بڑھا دی۔ اس نے اس کی آوازپر پیچھے مڑ کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی۔ جلد ہی پراسرار مسافر دوڑنے لگا۔ اس کا لال چوغہ ہوا میں اس خوبصورتی سے رقص کر رہا تھا جیسے خزاں کے کسی طوفانی دن میںکپڑ ے کی تار سے لٹکی روئی کی چادریں لہراتی ہیں۔
’’ براہ کرم دوست، شیوانا کو ڈھونڈنے میں میری مدد کرو‘’ جولین نے پکارا، ”۔ میں بہت کم خوراک اور پانی پر سات دنوں سے سفر کر رہا ہوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میںراستے سے بھٹک گیا ہوں۔”
وہ جسم اچانک رک گیا۔ جولین محتاط انداز میں آگے بڑھا جبکہ مسافر کافی سکون سے کھڑا تھا۔ نہ اس کا سر ہلا نہ ہاتھ۔ اس کے پاؤں زمین پر تھے۔ جولین ہڈ کے نیچے چھپے اس کے چہرے کا کوئی حصہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مسافر کے ہاتھ میں ایک چھوٹی ٹوکری تھی۔ وہ اس میں رکھی چیزوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ٹوکری کے اندر بہت نازک اور خوبصورت پھول تھے، ایسے پھول جولین نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ جیسے جیسے جولین قریب آیا، اس شخص نے ٹوکری کو مزید مضبوطی سے تھام لیا گویا اس چیز سے محبت اورلمبے مغربی باشندے کے تئیں عدم اعتماد ظاہر کرنا،ان جگہوں پر اتناہی عام ہے جیسے صحرا میں شبنم ۔
جولین نے تجسس سے مسافر کی طرف دیکھا۔ ڈھیلے ڈھالے ہوئے ہڈ کے نیچے سورج کی روشنی کی ایک کرن اچانک اس کے چہرے پر پڑی۔ جولین نے ایسا شخص کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اگرچہ وہ جولین کی عمر کا ہی ہو گا، لیکن اس آدمی میں کوئی ایسی حیرت انگیز چیز تھی جس نے جولین کو حیرت سے اس کی طرف گھورتے رہنے پر مجبور کیا، گویا وقت تھم گیا ہو۔ اس کی بلی جیسی آنکھیں اتنی چھیدنے والی تھیں کہ جولین دوسری طرف دیکھنے پر مجبور ہو گیا۔ اس کی زیتون کی رنگت سے ملتی جلتی جلد لچکدار اور ہموار تھی ۔ اس کا جسم مضبوط اور توانا لگ رہا تھا اوراگرچہ اس شخص کے ہاتھوں سے ظاہر ہوا تھا کہ وہ جوان نہیں ہے لیکن وہ اس قدر جوانی اور توانائی سے بھرا ہوا تھا کہ جولین اسے دیکھ کر ایسے مسحور ہو گیا جیسے کوئی بچہ اپنے پہلے جادوئی تماشہ میںجادوگر دیکھ رہا ہو۔
”یہ شیوانا کے عظیم بیٹوں میں سے ایک ہے’اس حقیقت کی دریافت پر جولین نے سوچا اور ‘ اس کے لیے اپنی خوشی پر قابو پانا مشکل ہو گیا۔
’’میں جولین مینٹل ہوں۔ میں شیوانہ کے رشیوںسے علم حاصل کرنے آیا ہوں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں انہیں کہاں تلاش کر سکتا ہوں؟” اس نے پوچھا.
اس آدمی نے مغرب سے آئے اس تھکے ہوئے مہمان کو گرمجوشی سے دیکھا۔ اپنے سنجیدہ اور پرسکون انداز کی وجہ سے وہ فطرتاً فرشتہ اورجوہرمیں روشن خیال دکھائی دیتے تھے۔
آدمی نے تقریباً سرگوشی والی آواز میں آہستہ سے کہا، ‘ ‘دوست، تم ان رشیوں کو کیوں ڈھونڈ رہے ہو؟”
جاری