تحریر: شیبا کوثر
پرندہ یہ کیسا پرندہ ہے آزاد ہو کر بھی بے بس ہے اور اپنے گھونسلے میں لوٹنے کے لئے اسے ابھی دو سال اور انتظار کرنا پڑے گا ۔ابھی تو اس کے بچے بھی نہیں ہیں مگر ابھی سے اپنے بچوں کے لئے دانا ا کھٹا کر رہا ہے ۔ابھی ابھی تو اس نے اپنے مادہ کی تلاش شرو ع کی تھی ،اسے تو ابھی ہواؤں کی سیر کرنا چاہئے تھا ۔۔۔جھر نوں اور تالابوں سے لطف اندوز ہونا چاہئے تھا ۔۔۔۔شہر کی اونچی اونچی مینار وں کا بغور جائزہ لینا چاہئے تھا ۔۔۔اور اپنی آزادی کا بھر پور لطف اٹھانا چاہئے تھا۔۔۔مگر اس نے تو اپنے آپ کو اپنی مرضی سے صیاد کے پنجڑے میں قید کر وا لیا۔
پرندوں کے اس شہر میں دنیا کے ہر ملک سے پرندہ جمع ہوتے تھے کوئی بنگلہ دیشی تھا تو کوئی پاکستانی تھا کوئی ہندوستانی تھا تو امریکن تھا کوئی افر یقی تھا تو کوئی مصری تھا تو کوئی افغانی ۔۔۔مگر سب کا مقصد ایک ہی تھا اپنوں کے لئے دانا اکٹھہ کرنا اور پھر واپس اپنے گھونسلے میں جاکر باقی کی زندگی آرام سے بے فکری کے ساتھ گزارنا ۔۔۔۔!!
پرندوں کا محافظ پرندوں کو صرف اور صرف آٹھ گھنٹے اپنی قید میں رکھنا چاہتا تھا مگر پرندے زیادہ سے زیادہ دیر تک قید میں رہنا چاہتے تھے ۔شاید اس لئے کہ قید کی اوقات کے عوض میں اسے کچھ اور دانا جمع کرنے کا موقع مل جاتا تھا ۔
شما ئیم بھی ایک ابھر تا ہوا ادیب اور شا عر تھا ۔پہلی بار اس کو ملک سے باہر ایک سیمنار میں شرکت کیلئے دوبئی بلایا گیا تھا اور اسے وہاں چند روز رہنے کا موقع ملا تھا ۔شما ئیم کی ملاقات وہاں کئی بڑے بڑے بز نس مین اور رئیس زادوں سے بھی کرائی گئی ،جنہوں نے مل جل کر وہاں سیمنار اور مشا عرے کا انقعاد کروایا تھا ۔اس ادبی محفل میں ہندوستان اور پاکستان کے کئی نامور شا عر اور ادیب شامل ہوئے تھے۔ادیبوں اور شعراء۔ کے رہنے کا انتظام ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں کیا گیا تھا اس لئے کہ ہوٹل کا مالک دوبئی کے شاہی خاندان کا ایک شیخ تھا جو اکثر شام کے وقت اپنے ہوٹل میں آتا تھا اس کے آتے ہی سارے ملازم با ادب ہوشیار ہو جاتے تھے ،مانو جیسے جلال الدین اکبر کا در بار ہو ،اگر تھوڑی بھی گستاخی ہوئی تو فورًا نوکری پر تلوار چل پڑےگی اور ملازمت سے معذور کر دیا جائے گا۔
اس ہوٹل کے اکثر و بیشتر ملازم ہندوستان،پاکستان،بنگلہ دیش اور افر یقی ملکوں کے تھے مگر اس ہوٹل کا منیجر ایک امریکی تھا۔شیخ سیدھے منیجر کے روم میں چلا جاتا اور پھر منیجر کا خاص ملازم ان لوگوں کی ضیا فت میں لگ جاتا تھا۔گھنٹوں دونوں کی محفل جمی رہتی تھی،جیسے وہ مالک اور منیجر نہیں بلکہ دوست ہوں ۔شما ئیم کو کبھی کبھی ہوٹل کے ماحول میں گھٹن سی محسوس ہونے لگتی اور اپنے شہر کے کلو چاچا کی چائے کی دکان یاد آنے لگتی۔جہاں روزانہ شام میں معمو ل کے مطابق شما ئیم اور اس کے دوست جمع ہوتے تھے اور کلو چاچا بڑے پیار سے ان لوگو۔ لوگوں کو ااسپیشل چائے بنا کر پلا تے تھے ۔کلو چاچا چائے کا برتن چو لہے پر چڑھا تے اور ساتھ ہی ساتھ پرانی باتوں کا پٹارہ کھول دیتے تھے اور پھر اپنی زندگی کے حا دثوں کو بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرنے لگتے وہ خالص اردو بولتا تھے ۔چونکہ ان کا بچپن لکھنئو میں گزرا تھا جسکا اثر ان کی زبان پر نمایاں تھا ۔ان کے حر کا ت و سکنا ت میں لکھنئو کی تہذیب رچی بسی تھی ۔انکی چائے کی دکان تو چھوٹی تھی اور کھپڑ پوش مکان میں تھی مگر صفائی ستھرا ئی کا خاص خیال رکھتے تھے۔چائے بنانے کا برتن بالکل چمکتا رہتا تھا ۔چائے پلا نے کے لئے وہ گلا س کی جگہ پیا لی طشتری کا استعمال کرتے تھے۔چائے بنا کر وہ بڑے فخر سے طشت میں رکھ کر پیش کرتے تھے ۔ہملوگ چائے کی چسکی لیتےجاتے اور کلو چاچا کی باتوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے تھے۔یہاں نہ کوئی منیجر تھا اور نا کوئی نوکر۔دکان کا سارا کام کلو چاچا خود سے کیا کرتے تھے ۔اسی چائے دکان کی آمدنی سے کلو چاچا اپنا گھر پریوار چلاتے تھے ۔انکو دو بیٹا نعیم اور کلیم تھے اور ایک بیٹی رخسانہ تھی ۔کلو چاچا نے اپنے دونوں بیٹوں کی پڑھائی لکھائی میں کوئی کثر نہیں چھوڑا ۔کلیم اور نعیم دونوں پڑھنے لکھنے میں بہت ہی ذہین اور محنتی تھے ۔کلو چاچا کا بڑا لڑکا نعیم انٹر کے بعد میڈیکل کے کمپٹیشن ایگزام میں بیٹھا اور پورے صو بہ میں اول آیا اور اب وہ ایک کامیاب ڈاکٹر ہے۔جسے سرکاری ہسپتال میں نوکری مل گئی تھی ۔دوسرا بیٹا کلیم ایک سرکاری افسر بن گیا ہے ۔اب کلو چاچا کے دن پھر گئے تھے زندگی کی ساری خوشیاں انہیں نصیب ہو گئی تھی ۔ہملوگ جب بھی کلو چاچا سے پوچھتے کہ چاچا اب تو آپ کو اللّه نے ساری خوشیاں دے دی ہیں ۔آپ کے دونوں لڑکے کامیاب ہو گئے ہیں اب تو آپ کو کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے تو پھر یہ چائے کی دکان بند کیوں نہیں کر دیتے ۔۔۔۔۔۔؟تو کلو چاچا !بڑے پیار سے کہتے بچوں کو پڑھا نا لکھانا یہ تو میرا فرض تھا ۔خدا تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ ہمارے دونے لڑکے پڑھ لکھ کر کامیاب ہوگئے اور میں نے اپنی بچی کی شادی بھی کر دی ہے مگر ان سب کا وسیلہ تو میری یہی چائے کی دکان ہے ۔آج اسی دکان کی بدولت میں نے اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو بہ حسن و خوبی نبھایا ۔یہی دکان تو میری اصل پو نجی ہے ،جب تک اللّه پاک نے مجھے صحت دی ہے میں اس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور خدا پاک کا ہزار ہزار شکر ہے کہ میں آج بھی اپنے بچوں کا محتاج نہیں ہوں اور اپنی ضروریات اسی چائے کی دکان سے پورا کرتا ہوں ۔ہمارے لڑکے جو پیسہ مجھے دیتے ہیں میں اسے الگ جمع کرتا ہوں،اسی پیسے سے میں نے حج ادا کیا ہے اور یتم بچوں کے لئے ایک درس گاہ قائم کرنا چاہتا ہوں ۔میں نے اس کے لئے زمین کا ایک ٹکڑا بھی خرید لیا ہے اور اللّه نے چاہا تو جلد ہی اس پر تعمیر کا کام بھی شرو ع کروا ؤں گا ۔
کلو چاچا کی بات سنکر ہماری نظر میں انکی عزت اور بڑھ گئی اور میں سوچنے لگا کہ کلو چاچا جیسے فرشتہ صفت شخص کی ہی آج دنیا کو ضرورت ہے۔اکثر شام کے وقت شما ئیم ہوٹل سے باہر ٹہلنے کو نکل جاتا ۔۔۔اور دبئی کی سڑکوں پر زندگیوں کو ڈور تے بھاگتے دیکھتا رہتا ۔۔۔ہر طرف بلند عمارتیں تھیں اور سڑک پر بر ق رفتار دوڑ تی بھاگتی چمچما تی گاڑیوں کا ایک قافلہ رہتا تھا۔۔۔سڑک کے دونوں جانب بڑی بڑی دکانیں تھیں ،جسمیں دنیا کی ساری نعمتیں سجی تھیں۔ ۔۔۔ہر طرف دولت کی فرا وانی نظر آتی تھی ۔۔۔۔ہر انسان اپنے لئے دنیا کی ساری نعمتیں خریدنا چاہتا تھا اور خرید و فر و خت میں اپنی دولت کا کھل کر نمائش کرتا تھا ۔۔۔روشنی سے جگمگاتا ہوا شہر جنت کا نمونہ پیش کر رہا تھا۔۔۔۔مگر شما ئیم کا ذہن منتشر تھا،وہ سوچ رہا تھا کیا یہ وہی دنیا ہے جسے اللّه کے رسولؐ نے ایک سرائے سے تعبیر دی ہے ۔جو انسان کے لئے ایک مسافر خانہ کی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔۔جسے سرائے فانی کہا جاتا ہے ۔۔۔۔۔کیا لوگ اسی کو اپنا آخری مقام تصور کر بیٹھے ہیں ،کیا ان لوگوں کو آخرت کی ذرا برابر بھی فکر نہیں ہے ۔۔۔۔انہیں سب سوالوں میں الجھتا ہوا شما ئیم کب اس ڈھابے میں پہنچ گیا ،جہاں چند پرندے دن بھر کی مشقت کے بعد سانس لینے اور سستا نے کے لئے جمع ہوئے تھے جو شہر کے کنارے تھا اور اس ڈھابے کو چلانے والا ایک پنجابی تھا جو چنڈھی گڑھ کا رہنے والا تھا وہ اپنے ملک کے پرندوں کا بڑا ہمدرد تھا اور بہت ہی مناسب قیمت پر پرندوں کو کھانا کھلا تا تھا اس لئے پرندوں کا مالک اپنے ہندوستانی پرندوں کو اسی ڈھابے پر کھانے کے لئے بھیجتا تھا۔ وہیں میری ملاقات ایک بہاری پرندے سے ہوئی تھی اس کی باتوں سے میں اتنا متاثر ہوا تھا کہ میں جب تک دبئی میں رہا اس سے ملنے ضرور جاتا تھا ۔اس نے مجھ سے کہا تھا کہ جانتے ہیں شما ئیم صاحب !یہاں بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو بہت بڑی بڑی ڈگریا ں لئے ہوئے ہیں مگر ان کی مناسبت سے یہاں انہیں کام نہیں ملا ہے ۔اور جبکہ بڑی سخت محنت بھی وہ کرتے ہیں لیکن جب اپنے ملک واپس جاتے ہیں تو جھوٹی شان و شوکت میں پڑ جاتے ہیں اور یہاں سے بہتر کام بھی انہیں اپنے ملک میں کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اس کی وجہ ہمارے سماج کا بگڑا ہوا ڈھانچہ ہے۔۔۔ہملوگ محنت و مشقت کرنے والوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں بلکہ ان کے مقابلے ان کی عزت زیادہ کرتے ہیں جو شرافت کے ساتھ غریبوں اور محتاجوں کا خون چوستے رہتے ہیں ۔۔۔۔اس کی بات کا مجھ پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ جب میں اپنے وطن واپس لوٹ کر جاؤں گا تو ایک ایسا ادارہ قائم کرونگا ۔۔۔جس میں انسانیت کا درس دیا جاتا ہو ۔۔۔وہاں سے فارغ طالب علم ایسے ہوں جو انسان کی عزت انسانیت کی بنیاد پر کریں ۔اور چن چن کر ایسے ظالم سفید پوشوں کو سامنے لائیں جو بڑے بڑے عہدے پر فائز ہیں مگر انسانیت ان کے اندر سے کوسوں دور ہے۔۔۔اور اس ادار ے کا صدر میں کلو چاچا کو بناؤ ں گا ،جن کے پاس دنیا کی تو کوئی ڈگری نہیں ہے مگر ان کے دل میں خوفِ خدا اور انسانوں کے تیئں ہمدردی ہے اور جن کی تربیت لکھنئو کے ایک ایسےگھرا نے میں ہوئی تھی جہاں کا ماحول پاکیزہ تھا اور جہاں انسانیت کا بول بالا تھا ۔۔۔!!