تحریر:اسد مرزا
حالیہ عرصے میں جس طرح ہندوستان نے اپنے علاقائی ہم سایوں مالدیو اور سری لنکا کے ساتھ تعلقات بہتر کیے ہیںاس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی ایک نئی جہت اور سوچ کے مطابق اپنے ہم سایوں کے ساتھ با معنی اور باہمی فوائد کے اور بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
اس کی تازہ مثال سری لنکا اور ہندوستان کے تعلقات میں آنے والی تبدیلی سے صاف ظاہر ہوتی ہے۔ گزشتہ 17مارچ کو سری لنکا کے وزیر خزانہ باسل راجا پاکسے نے اپنے دورۂ نئی دہلی کے دوران دونوں حکومتوں کے درمیان ”قلیل مدتی رعایتی قرض کی سہولت” کے معاہدے پر دستخط کیے۔ ہندوستان کی جانب سے اس میٹنگ میں وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر بھی موجود تھے۔ میٹنگ کے بعد جے شنکر نے اپنے ٹویٹ میں ہندوستان کی ”پڑوسی پہلے” کی پالیسی کو دہرایا۔
یہ امداد سری لنکا کو ہندوستان سے خوراک، دیگر ضروری اشیاء اور ادویات درآمد کرنے کے قابل بنائے گی۔ اب تک، دہلی نے جنوری 2022 سے سری لنکا کو مجموعی طور پر 2.4 کھرب ڈالر کی مالی امداد فراہم کی ہے، لیکن اس سے ملک کے معاشی بحران کو کم کرنے میں صرف جزوی مدد ملے گی۔17مارچ کو ہندوستان نے سری لنکا کو مزید ایک کھرب ڈالر کی کریڈیٹ سہولت فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا۔
گزشتہ چھ ماہ میں ہندوستان نے جن مدوں کے لیے امداد کا اعلان کیا ہے اس میں شامل ہیں : USD 500 ملین آئل لائن آف کریڈٹ؛ مذاکرات کے تحت ہندوستان سے درآمد کی جانے والی ضروری اشیاء کے لیے USD 1 بلین لائن آف کریڈٹ؛ USD 400 ملین کی کرنسی کا تبادلہ؛ ایشین کلیئرنس یونین کے تحت USD 515 ملین کی التوا؛ کریڈٹ پر 40,000 MT ایندھن؛ رپورٹس کے مطابق، 100,000 ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ کٹس اور 1,000 ٹن مائع طبی آکسیجن کی فراہمی۔
ہندوستان سے توقع ہے کہ وہ فوری طور پر سری لنکا کو کھانے پینے کی اشیاء اور صحت ِ عامہ سے متعلق پیکج میں توسیع کرے گا، اس کے ساتھ ساتھ انرجی سیکورٹی پیکج اور کرنسی کے تبادلے کے ساتھ ہندوستانی سرمایہ کاری کو بھی آگے بڑھایا جائے گا۔ ہندوستان کے NTPC نے گزشتہ ہفتے مشرقی صوبے ٹرنکومالی کے سمپور میں ایک سولر پلانٹ لگانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جب کہ اڈانی گروپ نے شمالی سری لنکا کے منار اور پونیرین علاقوں میں ایک اور ونڈ/سولر پروجیکٹ کے لیے دستخط کیے ہیں۔ انڈین آئل کی ذیلی کمپنی لنکا انڈیا آئل کارپوریشن اور سیلانگ پیٹرولیم نے مشترکہ طور پر ٹرنکومالی آئل ٹینک فارم تیار کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ دہلی شمالی جزیرہ نما جافنا میں پالی ہوائی اڈے اور کنکیسنتھورائی بندرگاہ کی مشترکہ ترقی پر بھی زور دے رہا ہے۔
سری لنکا کا اقتصادی بحران
سری لنکا کی اقتصادی تباہی جزوی طور پر خود وہاں کے سیاسی رہنماؤں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے شروع ہوئی جیسا کہ (CBSL) سینٹرل بینک آف سری لنکا کے سابق ڈپٹی گورنر ڈاکٹر وجیوردانہ نے اشارہ کیا ہے ”حکومت نے اس وقت سنگین پالیسی غلطیاں کیں جب اس نے انکم ٹیکس دہندگان کے لیے غیر مطلوب، پرکشش ٹیکس رعایت کا اعلان کیا۔ اس غیر معمولی اقدام کے نتیجے سے جہاں ایک طرف ملک کی معیشت میں افراط زر کا دباؤ بڑھا وہیں دوسری جانب غیر ملکی ذخائر کی کمی سے مارکیٹ میں روپے کی گراوٹ دیکھنے میں آئی۔
سن 20 اور 21 میں سیاحت سے ہونے والی آمدنی میں خاطر خواہ کمی، قرضوں کی بھاری ادائیگی اور کورونا وبا سے متعلق اخراجات میں اضافہ نے بھی ان مالی پریشانیوں میں اضافہ کیا۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی بینک کے مطابق 500,000 افراد خطِ افلاس سے نیچے آگئے ہیں،جب کہ اشیائے خوردونوش کی مہنگائی 21 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ مزید برآں،یوکرین جنگ کی وجہ سے تیل پر انحصار کرنے والے سری لنکا کے مسائل میں اور اضافہ رونما ہوا ہے۔
سری لنکا کا مالی اور سیاسی بحران
17مارچ کو جب ان کے بھائی باسل راجا پاکسے دہلی پہنچے تھے،تو اسی بیچ صدر گوٹابایا راجا پاکسے نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کی حکومت بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ صدر کی یہ تقریر قلت اور بڑھتی ہوئی قیمتوں پر کئی دنوں کے زبردست احتجاج کے بعد سامنے آئی تھی جس نے ملک بھر میں سری لنکا کے لیے روز بروز غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ 14مارچ سے شروع ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں مظاہرین نے کولمبو میں مرکزی گال روڈ کو جام کر دیا، ان میں سے کچھ صدر کے دفتر میں بھی داخل ہو گئے۔ ”گو گوٹا گو” اور ”سر فیل” ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں میں گونج رہے تھے۔ صدر راجا پاکسے نے اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں کہا کہ سری لنکا کو اس سال 10 بلین ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوگا اور ”حالات ہمارے قابو سے باہر وجوہات کی بنا پر جاری رہیں گے”، حالانکہ ان کی حکومت بحران کو کم کرنے کے لیے ”زیادہ سے زیادہ ممکنہ کوششیں کر رہی ہے۔‘‘
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صرف دو سالوں میں، سری لنکا کے خاندانِ اول نے بحرانوں کے ایک ایسے سلسلے کی شروعات کی ہے جو زیادہ ترخود ان کے اپنے ہی بنائے ہوئے مسائل سے سامنے آئے ہیں۔
اس پورے معاملے میں اصل مقصد راجا پاکسا خاندان کے اثر و رسوخ کو بڑھاناتھا۔ نومبر 2019 کے صدارتی انتخابات میں عہدہ حاصل کرنے والے گوٹابایا نے اپنے بھائی مہندا کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ مہندا پہلی بار 2004 میں اقتدار میں آئے، ابتدا میں وزیر اعظم اور پھر صدر کے طور پر۔ اس وقت، گوتابایا سیکرٹری دفاع تھے اور تامل باغیوں کے ساتھ خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے 2009 کے آپریشن میں اپنے کردار کے لیے بدنام تھے۔ان کے اوپر تشدد، عصمت دری، ماورائے عدالت قتل کے الزامات کے درمیان ہزاروں افراد ہلاک یا لاپتہ ہو گئے تھے اور تامل علیحدگی پسندوں، صحافیوں اور اپوزیشن شخصیات کا اغوا اور قتل روزانہ کا معمول بن چکا تھا۔ گوٹابایا ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
ان کا سب سے بڑا بھائی، چمل، ایک کابینہ وزیر ہے، جب کہ ان کا بیٹا غیر کابینہ وزیر ہے۔ وزیر اعظم کا ایک بیٹا بھی کابینہ میں ہے، دوسرا ان کا چیف آف سٹاف ہے، اور ایک بھتیجا ممبر پارلیمنٹ ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق بجٹ کا تقریباً 75% حصہ حکومت میں راجا پاکسے کے وزراء کے کنٹرول میں ہے۔ لیکن اقتدار میں موجود تمام راجا پکسے سری لنکا کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے جو کچھ کرنے کی ضرورت تھی وہ نہیں کر سکے ہیں۔
حالات اتنے خراب ہیں کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے حمایت حاصل کرنے کے لیے راجا پکسے بھائیوں کی مزاحمت میں نرمی آ رہی ہے، بلومبرگ نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سری لنکا کے حکام نے 14مارچ سے آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت شروع کی اور اگلے ماہ کے اوائل تک پالیسی تجاویز پیش کر سکتے ہیں۔
ساتھ ہی سری لنکا نے حال ہی میں چین کے ساتھ ایک نئے قرضے پر بات چیت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمبنٹوٹا بندرگاہ – چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا حصہ ہے جوکہ اس بات کی ایک مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ بیجنگ کے انفراسٹرکچر ڈرائیو میں کیا غلط ہوسکتا ہے۔ سری لنکا نے بندرگاہ کی تعمیر کے لیے بہت زیادہ قرض لیا، قرضہ واپس نہ کر سکا، اور پھر چین کو قرض سے نجات کے لیے 99 سال کی لیز پر دے دیا۔
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ گوٹابایا بمشکل ہی سری لنکا کو متحد کرنے والی شخصیت ہیں جس کی سری لنکا کو اس وقت بہت شدید ضرورت ہے۔ تاہم، پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ اور انتخابات کے 2024 اور 2025 تک نہیں ہونے کی وجہ سے ، اپوزیشن کے احتجاج سے خاندان کی اقتدار پر گرفت ڈھیلی ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن گھڑی ٹک ٹک ٹک رہی ہے اور لوگ ناراض ہیں – اور بھوکے بھی ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں کسی قسم کی تاخیر ملک کو مالی ڈیفالٹ کے ایک قدم اور قریب لے جائے گی۔ اور یہ وہ راستہ نہیں ہے جس پر کوئی بھی چاہے گا سری لنکا سفر کرے۔
مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔