تحریر:سہیل سالمؔ
سفر کی اہمیت و عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے علامہ اقبال لکھتے ہیں ؎
ہر مقام سے آگے ہیں مقام تیرا
حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں
انسانی زندگی کو اگر ایک نئے زوایے اور منفرد طریقے سے دیکھنا ہو تو ،ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرنا ضروری ہے۔اسے ایک انسان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ دوران سفر موصول ہوئے تجربات ،مشاہدات اورمعلومات سے وہ دوسروں کے کام آسکتا ہے۔
زیر نظر ’’علامہ اقبال کے دیس میں ‘‘مرزا بشیر احمد شا کرؔ کا سفرنامہ ہے۔جو انھوں نے علامہ کے دیس کے مختلف شہروں خاص کر روالپنڈی،پیشاور ،لاہور اور مظفر آباد کا سفر کر کے خوبصورت روداد رقم کی ہے۔سفر نامہ ’’ علامہ اقبال کے دیس میں‘‘اٹھ عنوانات پر مشتمل ہیں۔جن میں تقریظ از پروفیسر بشیر احمد نحوی،پیش لفظ از پروفیسر غلام رسول ملک ،حرفے چند از ڈاکٹر الطاف انجم، پیش گفتار از مرزا بشیر احمد شاکر،سفر نامہ اول۔علامہ اقبال کے دیس میں،سفر نامہ دوم ۔لیلائے تمنا کی آغوش میں اور سفر نامہ سوم ہمیں بھی یاد کرلینا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
سفرنامہ اول(اقبال کے دیس میں):مرزا بشیر شاکرؔ اپنی زندگی میں پہلی بار اپریل ۲۰۱۲ کو پرکشش احساسات و جذبات کے سمندر میں غرق ہوتے ہوئے دہلی سے بذریعے بس واگہہ سرحد سے علامہ کے دیسف پہنچ گئے۔سفرنامہ میں لاہور کے مختلف شہروں،خوبصورت علاقوں،حسین سرسبز وادیوں،جھیل ،دریا،چشمہ و اونچی پہاڑیوںکے جنت نظیر منظر،لاہور کا شور غل ،لاہور کے حاکم، لاہور کا نظم وضبط،داتا گنج بخش حضرت سید علی ہجویری ؒکے روضہ شریف کی شان شوکت اور خواب گاہ اقبال کی کشش کے حالات کا بھی ذکر ملتا ہے۔ان مقامات کے خوبصورت وسحرانگیز مناظرمرزا بشیر شاکرؔ کوتازگی وتوانائی عطا کرتے ہیں،انھیں فطری مسرت حاصل ہوتی ہے۔ان سب میں خواب گا ہ اقبال کی زیارت ان کے لئے سب سے زیادہ پر کشش تھی۔خواب گاہ اقبال کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’حکیم لامت علامہ اقبال کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ان کو پیامبرخودی، شاعر مشرق ،دانائے راز ،مردقلندو،فلسفی شاعر اور حکیم الامت وغیرہ کے خطابات اور القبات سے نوازا گیا ہے۔ راقم کی مدت سے یہ خواہش تھی کہ اس فن فی القرآن اور عشق رسولﷺ سے سر شار مفکر اسلام کے مرقد کی زیارت کروں ۔اللہ کے فضل و کرم سے میری یہ تمنا پوری ہوگئی اور مسجد کے سائے میں تھوڑے سے فاصلے پر سیڑھیاں چڑھتے ہی شمالی جانب اس مرد خود آگاہی کا مسکن ابدی نظر نواز ہوا۔مقبرے کی چھوٹی سی عمارت سنگ احمر سے تعمیر کی گئی ہے۔اس کے اندر اس عظیم شاعر ومفکر اور ترجمان اسلام کا مرقد مبارک ہے جو کہ سنگ مرمرکی لوح لگی ہے،جس پر یہ عبارت کندہ ہے۔
ان من الشعر لحکمتہ و ان من البیان لبحرا
مقبرہ اقبالؔ کے فرش پر سنگ مر مر کی خوبصورت تختیاں تزئین کاری کا عمدہ نمونہ ہیں اور دیواروں کے چاروںاطراف میں علامہ اقبالؔ کے دل نشین اشعار کندہ کرائے گئے ہیں۔علامہ نے اپنے وقت میں کہا تھا ؎
زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاک راہ کو میں نے بتایا راز لوندی
یہ عشق اقبالؔ کا پرکشش جذبہ ہی ہے جو مجھے کھینچ کے اس زیارت گاہ پر لے آپا ۔میں نے خلوص بھرے دل اور پورے جذبات کے ساتھ یہاں حاضر ہو کر قرآن کی جستہ جستہ تلاوت کی،درودشریف کا ورد کیا ۔سورہ فاتحہ اور دیگر اذکار مسنونہ کا ثواب محو خواب مرد قلندر کی روح کوبخشش دیا۔ مجھ نادار مسافر کے پاس اس کے علاوہ اور تھا ہی کیا جو ان کی نذر کرتا۔‘‘(علامہ اقبال کے دیس میں۔۔ص۔۔۵۰)
سفرنامہ اول میںاور بھی ایسے اقتباسات ہیں جو ماجول ومناظر کی خوبصورتی ودلکشی کو اجاگر کرتے ہی ہیں ساتھ ہی مرزا بشیر شاکرؔکی کامیاب
منظر نگاری،تشبیہات و استعارات کے عمدہ استعمال،حسن لاہور کے تئیں ان کے تعلق کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔مرزا بشیر شاکرؔ علامہ کے دیس کو ہمیشہ احترم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے حسن میں گم ہو کرجذبات کا اظہار کرکے ایک سچا عاشق اقبال ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔دوران سفر انھوں کبھی بھی منفی نظریے سے نہیں دیکھابلکہ ہمیشہ مثبت پہلوئوں کا محبت بھری نظروں سے جائزہ لیا ہے جو اس سفر نامہ اول کا خاص وصف ہے۔
سفرنامہ دوم:مرزا بشیر شاکرؔ کا خواب جب پہلے سفر کے دوران پورا نہیں ہوا تو اپنے اس خواب کو رنگ بھرنے کے لئے پھرمارچ ۲۱۰۴ میںدوسری بار سرزمین اقبال کا سفر کیا جو کہ’’ لیلائے تمنا کی آغوش میں‘‘ کے عنوان کے تحت شامل کتاب ہے۔لاہور کے حالات، یہاں کی زبان وثقافت ،یہاں کے مختلف مقدس مقامات،امازادوں کے مقامات کی زیارت،مرقد اقبالؔ کی زیارت،مقبرہ ابواالاثرحفیظ جالندھریؔ ،،یہاں کے پوسٹ آفس،علامہ اقبالؔ کے فرزند سے ملاقات،منصورہ اورجامعہ اشرفیہ لاہور سے متعلق مرزا بشیر شاکر ؔکے دلکش خیالات کا اندازہ ہوتا ہے۔سید علی ہجویری داتا گنج بخش ؒکے دربار عالیہ میں حاضری دیگر امت مسلمہ کی طرح مرزابشیر شاکرؔ کی بھی دیراینہ و ارلین خواہش تھی اور اس کی تکمیل ان کی زندگی کا اہم ترین لمحہ مسرت تھا۔انھوں نے دربار عالیہ کے روح پرور مناظرکو عقیدت کے ساتھ بیان کیا ہے۔لہجے میں جذبات کا سمندر موجزن ہے۔مقامات مقدس کا دیدار ان کے قلب وجان پر وجد طاری کردیتا ہے۔سید علی ہجویری داتا گنج بخش ؒکے دربار عالیہ میں حاضری کے بعد دلی کیفیت کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’حضرت سید علی ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخشؒ کا آستانہ مرجع خاص وعام ہے۔یہاں چوبیش گھنٹے زائرین نظر آتے ہیں۔ان کی تربت شریف سنگ مر مر کے پتھروں سے مرکز توجہ بن گئی ہے ۔جہاں ہر وقت پھولوں کی ٹوکریاں نچھاور کردی جاتی ہیں۔۔۔یہاں بھی زائرین عقیدت و احترام سے کھڑارہتے ہیں۔مجھے یہ مدحیہ فارسی شعر پہاں اس دربار عالیشان میں ور زبان تھا۔ ؎(اقبال کے دیس میں۔۔ص۔۔۸۸)
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں راپیر کامل کاملاں را راہنما
سفرنامہ سوم:زیر تبصرہ سفر نامے کے تیسرے سفر کا عنوان ’’ہمیں بھی یاد کر لینا ‘‘ ہے۔اس سفر نامہ میں مرزا بشیر شاکرؔ نے فروری۲۱۰۶ میں اینٹ آباد اور مظفر آباد کے مختلف شہروں کا سفر کر کے اپنے تجربات اور مشاہدات کا اظہار کیا ہے۔انھوںنے اینٹ آباد اور مظفر آباد میںبھی چند روز قیام کیا اور گرزے ہوئے شب روزکی تفصیلات کو سفر نامہ میںبیان کیا ہے۔وہاں کے احوال اور عزیزواقارب سے ملاقات و گفتگو کو انھوں نے جذباتی انداز میں بیان کیا ہے۔ بقول مرزا بشیر شاکر:’’چند ثانیوں کے بعد ہی محترمہ منیرہ اپنی نرس و خادمہ کے ساتھ کمرے میں تشریف آور ہوگیں۔میں احترام َکھڑا ورگیا اور سلام کر کے میں نے ان کے ماتھے کو فرط مسرت سے بوسہ دیا ۔ایک نہیں دو بار ۔مترمہ بیٹھ گیئں۔۔۔عظیم شاعر کی عظیم بیٹی محترمہ نے اپنی بیماری کا کچھ تذکرہ کیا۔قرآن کی تلاوت کرنے کی بات بتائی۔‘‘(اقبال کے دیس میں۔۔ص۔۔۱۷۳)
الغرض قاری جیسے جیسے کتاب کے صفحات پلٹتا ہے اسے مختلف چیزوں سے روشناس کرتا ہوا سفر نامہ نگار آگے بڑھتا جاتا ہے۔علامہ کے دیس کی تاریخی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں اورعلامہ اقبال کے کارنامہ کو بھی مختصر الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔وہیں سفر میں درپیش مسائل اور اہل علم سے استفادہ کی بھی روداد کو بڑی بے باکی سے قلم بند کیا گیا ہے۔کتاب کی طباعت عمدہ ہے نیز سرورق جاذب نظر اور دلکش بھی ہے۔جو دوست اردو کے سفر ناموں اور اقبالیت پر تحقیقی کام کر رہے ہیں ان کے لئے یہ سفر نامہ سودمند ثابت ہوگا۔