سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ایک ویڈیو میں بتایا گیا کہ غربت اور ضرورت کے نام پر بھکاری عوام کو ٹھگ رہے ہیں ۔ اس حوالے سے مبینہ طور ایک ایسے گروہ کو پکڑا گیا جو پیشہ ورانہ بھکاریوں پر مشتمل ہے اور لوگوں کو دھوکہ دے کر ان سے پیسہ وصول کرتا ہے ۔ ویڈیو وائرل کرنے والوں نے عام لوگوں سے اپیل کی ہے کہ ایسے بھکاریوں سے ہوشیار رہیں اور انہیں خیرات نہ دیں ۔ اس حوالے سے پولیس یا سرکار کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ۔ حالانکہ ایسا ویڈیو سامنے آنے کے بعد سرکار کی طرف سے کاروائی ہونی چاہئے تھی ۔ جموں کشمیر میں بھیک مانگنے پر پابندی ہے ۔ اس طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کاروائی کی توقع کی جارہی ہے ۔ اس دوران سوپور سے ایک ایسا ویڈیو سامنے آیا جس میں کسی مزدور کو ہاتھوں کے بجائے پائوں سے آٹا گوندھتے ہوئے دکھایا گیا ۔ وہاں کی انتظامیہ نے فوری طور حرکت میں آکر دکان میں موجود سارا اسٹاک ضایع کیا اور ملوث افراد کے خلاف کاروائی کرنے کا اعلان کیا ۔ بھکاریوں کے ویڈیو میں کہا گیا کہ یہ باضابطہ ایک مافیا ہے جو منظم ہوکر کام کررہاہے ۔ اس کے باوجود تاحال کوئی کاروائی نہیں کی گئی ۔
ماہ صیام کے علاوہ سارا سال لوگ کٹورے یا رسید بک لے کر خیرات جمع کرتے رہتے ہیں ۔ان میں صحیح اور غلط کی تفریق کرنا بہت مشکل ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ دینی اداروں کے نام پر رسید بک لے کر مولوی بن کر لوگ خیرات طلب کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایسے بیشتر اداروں کا یا تو وجود ہی نہیں ہے یا علامتی نام پر ادارے چلاکر کافی سرمایہ کمایا جاتا ہے ۔ ایسے فرضی اداروں کو سیل کرنے اور ان کے خلاف چارہ جوئی کرنے کے بجائے انہیں کھلی ڈھیل دے کر سرمایہ کمانے کی اجازت دی جارہی ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ دین اور سماجی خدمت کے نام پر چلائے جانے والے ایسے جعلی اداروں کے خلاف کاروائی کرنا آسان نہیں ۔ ایسے موقعوں پر لوگ جذباتی ہوکر سرکار کے خلاف سینہ سپر ہوجاتے ہیں ۔ لیکن اس وجہ سے جو قانون شکنی ہوتی ہے وہ آگے جاکر کسی بھی وقت وبال جان بن جاتی ہے ۔ ایسے فرضی اداروں کی سینہ زوری دیکھئے کہ گاڑیاں لے کر ان پر میگافون لگاکر خیرات کی اپیلیں کرتے رہتے ہیں ۔ دور دراز کے دیہاتوں میں ہی نہیں بلکہ شہر اور دوسرے قصبوں میں پورے زور وشور کے ساتھ حاجات کا ڈھنڈورہ پیٹا جاتا ہے اور لوگوں سے بڑی بڑی رقوم وصول کی جاتی ہیں ۔ لوگوں سے بار بار واقف کرایا گیا کہ ایسے لوگ دھوکہ دہی سے کام لے کر رقم وصول کرتے ہیں ۔ لیکن لوگ آنکھیں بند کرکے انہیں مالا مال کردیتے ہیں ۔ وادی میں جو بڑے دینی ادارے قائم ہیں انہوں نے کروڑوں اور کھربوں کی جو پراپرٹی بنائی وہ لوگوں اور سرکار سے حاصل کئے گئے اسی خیرات سے بنائی گئی ۔ اس ساری پراپرٹی کو اپنے اور اپنے گھر والوں کے نام درج کرکے کئی نسلوں کے لئے عیش وعشرت کا سامان فراہم رکھا گیا ۔ اس کے برعکس خیرات دینے والے وقت گزرنے کے ساتھ غریب سے غریب تر ہورہے ہیں ۔ وہ لوگ جو سرکاری اداروں کے پاس جاکر اپنی غربت کا رونا روتے اور سرکاریا سکیموں کا فائدہ اٹھاکر کچھ سو روپے اپنے بینک کھاتوں میں جمع کراتے ہیں وہی لوگ بھیک مانگنے والوں کی جیبیں بھردیتے ہیں ۔ ہم نے دیکھا کہ بہت سے لوگ گاڑیو ں میں لائوڈ اسپیکر لگا کر ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں کہ گردوں کے مریض کے لئے کئی لاکھ روپے درکار ہیں ۔ ایسے مریضوں کا کہیں وجود بھی نہیں ہوتا ۔ جب سے سرکار نے گولڈن کارڈ کی اسکیم رائج کی ایسے مریضوں کو کافی راحت میسر آرہی ہے ۔ اس کے باوجود لوگ اس طرح کے مرض کا بہانہ بناکر خیرات جمع کررہے ہیں ۔ ماضی میں کئی ایسے گروہ پکڑے گئے جو دھوکہ دے کر چندہ وصول کرتے اور ہڑپ کرجاتے تھے ۔ اس کے باوجود لوگ اس طرز عمل سے باز نہیں آتے اور فرضی بھکاریوں کو اپنے خون کی کمائی میں سے حصہ دیتے رہتے ہیں ۔ اس آڑ میں بیرونی ریاستوں سے بڑی تعداد میں بھکاری کشمیر آکر لوگوں سے چندہ وصول کرتے ہیں ۔ ان میں زیادہ تر عورتیں اور بچے شامل ہوتے ہیں ۔ بلکہ ایسا بھی دیکھا گیا کہ پورا خاندان اکٹھے ہوکر بھیک مانگتا رہتا ہے ۔ کشمیر سے باہر بڑے امیر اور سرمایہ دار لوگ رہتے ہیں ۔ وہ چاہیں تو ایسے غریبوں کو زیاد بہتر طریقے سے نواز سکتے ہیں ۔ بلکہ ایسی کئی مثالیں ہیں کہ حاجت مندوں کو ان کی حاجات فراہم کرنے میں ایک دوسرے سے آگے جانے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے باوجود پیشہ ور بھکاری اپنی عادت چھوڑنے کو تیار نہیں اور ایک منظم مافیا کی صورت میں لوگوں کو ٹھگ رہے ہیں ۔