تحریر:مولوی ثنا ء اللہ صوفی
ماہ رمضان میں اللہ کی رحمتیں بڑی وسیع ہوتی ہیں ۔ رحمٰن اور رحیم اللہ کے بنیادی اوصاف میں پہلی حیثیت کے حامل ہیں ۔ قرآن میں سب سے پہلے یہی دو لفظ اللہ کے لئے استعمال ہوئے ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ کو خود یہ دو صفت پسند ہیں اور اس کی رحمتیں ہمیشہ جاری رہتی ہیں ۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ ان رحمتوں کو کیسے حاصل کرتا اور اپنے لئے مخصوص کرتا ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی رحمتیں ہر وقت اور ہر انسان کے لئے نازل ہوتی رہتی ہیں ۔ ہمارے اعمال کا جائزہ لیا جائے تو ہم کسی طور اللہ کی رحمت کے مستحق نہیں ۔ یہ اس کی شان کریمی ہے کہ وہ ہمیں ہر چیز اور ہر ضرورت سے نوازتا ہے ۔ زمین پر جتنی بھی نعمتیں ہیں انسان کے لئے ہیں ۔ ان نعمتوں کا مزہ چکھنے اور ان سے صحیح لطف اٹھانے کا ملکہ انسان کو ہی حاصل ہے ۔ بلکہ جو دوسرے نباتات اور حیوان ہیں انہیں اس بات سے غرض نہیں کہ کھانے پینے کی چیزیں کتنی میٹھی اور لذیز ہیں ۔ یہ انسان کا ہی ردعمل ہے ک مٹھاس کا اسکیل استعمال کرکے کھاتا پیتا ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ اللہ نے تمام چیزوں کو انسان کے مزاج کے حساب سے بنارکھا ہے ۔ اس کے باوجود انسان اس کا شکر ن کرے تو الگ بات ہے ۔ انسان ازل سے ہی ناشکرا ہے ۔ ماہ رمضان کا حال چال دیکھئے کہ ہر میٹھی چیز اس کے دستر خوان پر موجود ہیں ۔ نعمتوں کی وافر اشیا صبح و شام اس کے سامنے حاضر رہتی ہیں ۔ ماہ رمضان میں ہونٹ سی لینے اور کھانے پینے سے احتراز کا مقصد انسان کو کفایت شعار بنانا تھا ۔ لیکن سب سے زیادہ فضول خرچی اسی مہینے میں ہوتی ہیں ۔ صحیح ہے کہ انسان اس مہینے کو برکتوں والا مینہ قرار دے کر اقرار کرتا ہے کہ اللہ افطار کے لئے کئی اقسام کی نعمتیں فراہم کرتا ہے ۔کیا واقعی ایسا ہے کہ یہ نعمتیں اللہ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں یا کسی کا گلہ کاٹ کر ہم مہیا کرتے ہیں ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ سرکاری تنخواہ کو اس بات کے باوجود کی ڈیوٹی سے انصاف نہ کرتے ہوئے اسے اللہ کی نعمت قرار دیا جاتا ہے ۔ چور بازاری اور بے جا منافع خوری سے کمائی گئی رقم کو اللہ کا فضل اور اس کی رحمت بتایا جاتا ہے ۔ ماہ رمضان کے متعلق ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اس کی مغفرت ہوگئی ۔ ماہ رمضان کا ایک عشرہ مغفرت الٰہی سے منسلک ہے ۔ مغفرت طلب کرنا م پر واجب ہے ۔ پھر دیکھنا ہے کیا ہم اس کے مستحق ہیں ۔ کوئی ہے جو رمضان میں اپنے ایمان کا جائزہ لیتا ہے ؟ کوئی ہے جو احتساب کا قائل ہے ؟ کوئی ہے جو ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھنے کا شوق رکھتا ہے ۔ کمزوریاں ہر ایک میں ہیں ۔ بس اتنا سوچئے کیا ہمارے ذہن میں کبھی خیال گزرتا ہے کہ روزوں کی قبولیت ومغفرت کے لئے ایمان و احتساب ضروری ہے ۔ احتساب نہ کریں ۔ کم از کم اس کا احساس ہی کریں ۔ ایسا کہیں نظر نہیں آتا پھر بھی مغفرت کے طالب ہیں ۔ بلکہ مغفرت کا سرٹفکیٹ ملنے کا اعلان کیا جاتا ہے ۔ مغفرت ایسے کوڑیوں کے دام نہیں بکتی ۔ یہ بڑی ارزاں شے ہے ۔ اس کے لئے امیدوار بن کر اور حق ادا کرکے کھڑا ہونا ضروری ہے ۔
رمضان کے آخری عشرے میں مغفرت اور رحمت تلاش کرنے کے لئے اعتکاف کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ یہ اصل میں شب قدر کی تلاش ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی اعتکاف کیا دوسروں کو اعتکاف کی تاکید کی ۔ ایک سال کسی وجہ سے اعتکاف پر نہ بیٹھ سکے ۔ اگلے سال بیس دن اعتکاف پر بیٹھ کر اس کا حق ادا کیا ۔ آج بھی یہ سنت جاری ہے ۔ اندر بیٹھ کر کیا سنت کو حاوی کرکے اعتکاف ادا کیا جاتا ہے ۔ کیا وہاں آہ و زاری یا ہنسی مزاق کو شعار بنایا گیا ۔ اعتکاف کے حجرے میں بیٹھ کر کیا خالق سے تعلق اور مخلوق سے علاحدگی اختیار کی جاتی ہے ۔ کیا دنیا والوں وک فراموش کرکے آسمان والے سے تعلق پیدا کیا جاتا ہے ۔ کیا آنسو بہاکر راتیں کاٹی جاتی ہیں یا دن کے ٹھٹھے مخول جاری ہیں ۔ کیا قرآن کے ساتھ لو لگاکر اس کو عادت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے یا سوشل میڈیا سے مشغول رہ کر وقت گزارا جاتا ہے ۔ اعتکاف سنت کے مطابق ہوتی تو رحمتیں ارزاں نہیں فروزاں ہوتی ۔ اس کے اثرات عیاں ہوتے ۔ اب کوئی بستی ایسی نہیں جہاں اعتکاف کا اہتمام نہیں کیا جاتا ۔ آج سے پردے لٹکا کر خلوت نشینی کے کمرے تیار کئے جاتے ہیں ۔ وہاں گائو تکیے لگائے جاتے ہیں ۔ مشک و عنبر کی سپرے ہوتی ہیں ۔ زیب و زینت کا سامان مہیا رکھا جاتا ہے ۔ سنت کے طور مسواک بھی سجائے جاتے ہیں ۔ لیکن ان کمروں سے جو رونق پھوٹنی چاہئے وہ شاید نظر نہیں آتی ۔ وجہ یہی ہے یہاں جو نعمتیں لائی جاتی ہیں وہ حلال رزق پر مشتمل نہیں ہوتی ۔ سور کا گوشت نہیں لایا جاتا ۔ سود کا ضرور چلن ہے ۔ کمائی کی نہیں رشوت کی آمیزش ضرور ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ اعتکاف پر بیٹھنے والوں کے لئے محلے والے سحری و افطار کا اہتمام کرتے ہیں ۔ خوشی کی بات ہے ۔ لوگ ان کے احترام میں ایسا کرتے ہیں۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ جن گھروں سے کھانا آتا ہے وہاں حلال وحرام کی کوئی تمیز نہیں ۔ وہاں صحیح اور غلط کا ادراک نہیں ۔ یہی ہمارا رمضان اور یہی ہمارے روزے ہیں ۔ یہی ہمارا اعتکاف اور یہی ہماری مغفرت ہے ۔