تحریر:محمد ریاض ملک
تعلیم کے لئے وقت،استاد اور چاہت کا ہونا بہت ضروری ہے۔اگر یہ تینوں چیزیں میسر ہوں گی تو جگہ کا تعین ان کا باہمی معاملہ ہے۔اس دور ِحدید میں ان تینوں چیزوں کا فقدان نظر آرہا ہے۔وقت نہ استاد کے پاس،نہ طالب علم کے پاس۔استاد کی جگہ تو یوٹوب، آن لائن، فیس بک، واٹس آپ، ٹویٹر یا انسٹا گرام نے لے لی ہے۔اب طالب علم استاد کے سامنے بیٹھنے کے بجائے کسی کمرے میں موبائل فون کے سامنے بیٹھتا ہے۔جب یہ دونو چیزیں اپنا رخ تبدیل کر لے تو عمل والے علم کی چاہت ختم ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ ڈگریوں والی علم کی چاہت بڑ ھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سرکاری اسکولوں کا تعمیری اور تعلیمی نظام دم ٹوٹ تا نظر آرہا ہے۔کئی جگوں پر عمارت خوبصورت مگر استاد نہیں ہیں۔کہیں استاد ہیں مگر عمارت نہیں۔کہیں پر عمارت بھی وسیع وعریض،بچے بھی موجود مگر استاد نہیں ہیں اور کہیں عمارت بھی ہے استاد بھی ہیں مگر بچے نہیں ہیں۔
یہ جال جموں کشمیر کے کسی ایک ضلع کی نہیں ہے بلکہ منجملہ اضلاع کا ییی رونا ہے۔ضلع پونچھ جو جموں سے قریب240کلو میٹر دوری پر واقع ہے۔اس ضلع کے ہر تحصیل میں پائے جانے والے سرکاری اسکولوں کا یہی حال ہے۔گورمنٹ ہائی اسکول اڑائی ملکاں میں جو ضلع پونچھ سے 31کلو میٹر دور پنچائیت اڑائی ملکاں میں قائم ہے۔بہترین عمارت بچوں کی اچھی خاصی تعدادہے۔مگر افسوس کہ ہائے، اسکول ہوتے ہوے مڈل اسکول کا عملہ بھی پورا نہیں ہے۔اگر چہ آج تک اس اسکول میں تعلیم مسحر پر تقدیر اور کھیل کود میں نمایاں کار کردگی رہی ہے۔اس حوالے سے اسکول انچارج ہائی اسکول ماسٹر محمد دین سے بات کی گئی تو ان کا کہناتھاکہ تین سال پہلے اس اسکول کا درجہ مڈل سے برھا کر ہائی اسکول کیا گیا تھا۔لیکن ابھی یہاں پر مڈل اسکول کا عملہ بھی پورا نہیں ہے۔اس وقت دس جماعتوں میں کل 313 بچے اندراج ہیں۔ جن میں نویں جماعت میں 48اور دسویں جماعت میں 29طلباؤطالبات زیر تعلیم ہیں۔عملہ پانچ اساتذہ پر مشتمل ہے۔ہیڈ ماسٹر کی پوسٹ بھی خالی ہے۔ہائر کلاس کا کوئی بھی ٹیچر نہیں ہے۔ایک فزیکل ٹیچر تھا اس کا بھی تبادلہ ہو چکا ہے۔اور انچارج ہیڈ ماسٹر بھی پرموشن کے بعد تبدیل ہو چکا ہے۔پانچ استاد ہیں جن کے ذمہ اسکول اور اس کے دفتر کام بھی ہے۔میڈے میل اور دیگر دفتری کام بھی انہیں کے سرچڑھ کے ہے۔
تعلیم کے حوالے سے10th کلاس کی طالبہ یاسمین اختر سے بات کی گئی تو اس کا کہنا تھاکہ کویڈ۔19 کی وجہ سے گذشتہ تین سال ہمارے اسکول بندرہے۔ اب پچھلے ایک ماہ سے اسکولوں میں دوبارہ رونقیں بحال ہوئی ہیں۔لیکن یہاں کبھی ایک مضمون اور کبھی دو مضمون کی ہی کلاس لگتی ہے۔جس سے ہمارا تعلیمی نظام بجاے بہتری کی جانب جانے کے بد سے بد تر ہوتاجارہاہے۔اس حوالے سے سرپنچ حلقہ محمد اسلم ملک سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھاکہ ایسا لگتا ہے کہ محکمہ تعلیم اس اسکول اور اس کے طالب علم کے مستقبل کے ساتھ مذاق کر رہا ہے کیونکہ جب سے اسکول کا درجہ ہائی اسکول کا ہواہے تب سے محکمہ تعلیم کی جانب سے اساتذہ کی تعداد کو بڑھانے کی جگہ کم ہی کیاجارہاہے۔یہاں پہلے اٹھ استاد تھے اور اب حال یہ ہے کہ یہاں ہائی اسکول میں پانچ استاد اور ساڑے تین سو کے قریب بچے ہیں۔ یہاں اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے بچے بس اسکول کا چکر ہی لگاکر واپس چلے جاتے ہیں۔یہ حالت کسی ایک اسکول کی نہیں ہے بلکہ تعلیمی زون منڈی میں 57اسکول سربراہان (ہیڈ ماسٹر یاپرنسپل) سے خالی ہیں۔
پورے جموں وکشمیر کے سرکاری اسکولوں یا ضلع پونچھ کے سرکاری اسکولوں کا تعلیمی نظام کس قدر فعال ہے اس کا اندازہ اس تعلیمی زون منڈی سے بخوبی لگایاجاسکتاہے۔ جہاں ہائیر سیکنڈری ہائی اسکول کو چھوڑ کر 57مڈل اسکولوں میں سے 50پچاس میں ہیڈ ماسٹر نہیں ہیں۔ پرائیمری اسکول، مڈل اسکول، ہائی اور ہائیر سیکنڈری اسکول کی کل تعداد تعلیمی زون منڈی میں 157ہے۔ جن میں سے مڈل اسکول 57، ہائی اسکول آٹھ اور ہائیر سیکنڈری اسکول چھ ہیں۔ان میں نئے دو ہائیر سیکنڈری اسکول بھی شامل ہیں۔اب جہاں 57مڈل اسکولوں میں ہیڈ ماسٹر ہی نہ ہوں۔باقی ہائی اسکول اور ہائیر سیکنڈری اسکول میں ہیڈ ماسٹر یاپرنسپل نہ ہوں وہاں تعلیم کا کیا حال ہوگا؟اس کا اندازہ لگانا نہ تو قارئین کے لئے مشکل ہے اور نہ ہی محکمہ کے افسران کے لئے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ آخران دیہی غریب عوام کے بچوں کے لئے بہتر تعلیم کیسے ممکن ہوگی؟اور کون ان کی تعلیم کا ضامن بنے گا؟
یہی سوال جب چیف ایجوکیشن آفیسر، پونچھ عبدالمجید سے کیا تو ان کا کہناتھاکہ ہم کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی کوشش کب تک کامیاب ہوتی ہے۔ بہرحال جب یہی سوال زونل ایجو کیشن آفیسر، منڈی بشیر احمد سے کیا تو ان کابھی اسی طرح کا جواب تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ تسلیم کیاکہ تعلیمی زون منڈی کے متعدد اسکولوں میں اساتذہ کی قلت ہے۔ کہیں اساتذہ زیادہ ہیں تو بچے کم اور کہیں بچے زیادہ ہیں تو استاد کم ہیں۔ کہیں ہیڈ ماسٹر نہیں ہیں۔ اب جبکہ کویڈ کے ایک لمبے عرصہ کے بعد اسکول کھلے ہیں۔ تو اب یہ نظام بھی آہستہ آہستہ پٹڑی پر لوٹ آنے کے لئے ہم اساتذہ کے ساتھ مشاورت کررہے ہیں اور جہاں اساتذہ کم ہیں وہاں وہاں ان اسکولوں سے کسی طرح اساتذہ کو لانے کی کوشش کررہے ہیں جہاں بچے کم ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اگلے ایک مہینہ میں آپ کو تبدیلی ضرور دیکھنے کو ملے گی۔
بہرحال یہ حال کسی ایک سرکاری اسکول کا نہیں ہے بلکہ تعلیمی زون منڈی کے تمام سرکاری اسکولوں کا نظام دھرم بھرم ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم اور لیفٹنٹ گورنر انتظامیہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کے وعدے اور اعلان کر رہے ہیں۔تو وہیں دوسری جانب تعلیم اور تعلیمی اداروں کی حالت زار پر ترس آتاہے۔ سب نے اپنے اپنے سر سے یہ کہہ کرذمہ داری اتار دی کہ ہم کوشش کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ کوشش کب ختم ہوگی؟ اور یہ کوشش اب تک کیوں نہیں کی گئی؟کیا محکمہ تعلیم کو اس کی خبر نہیں تھی؟ اتنے بڑے محکمے کے پاس کوئی اپڈیٹ نہیں ہوتا ہے؟ ان تک کوئی اطلاع نہیں پہنچتی ہے کہ کس اسکول میں اساتذہ کی کتنی اسامیاں کب سے خالی پڑی ہیں؟کوئی ہے جو ان سرکاری اسکولوں کی حالت زار پر ترس کھائیگا؟ (چرخہ فیچرس)