جموں کشمیرمیں انتظامیہ کی طرف سے خواتین کے لئے خود روزگاری کی کئی منفرد اسکیموں کو متعارف کرایا گیا ہے ۔ اس حوالے سے سرکار کا کہنا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر کام جاری ہے ۔ دعویٰ کیا گیا کہ ملک میں اس طرح کی اسکیموں کے نفاذ میں جموں کشمیر سب سے آگے ہے ۔ خواتین روزگار کے ایسے وسائل اختیار کررہی ہیں جن تک کچھ سال پہلے ان کی کوئی رسائی نہ تھی ۔ماحول میں کافی حد تک تبدیلی آچکی ہے اور خواتین ترقی پسندی کی راہ پر گامزن ہیں ۔ یہ ایک مثبت تبدیلی قرار دی جارہی ہے ۔ جموں کشمیر میں خواتین پڑھائی کے معاملے میں بڑی حساس ہیں ۔ بلکہ کئی سالوں سے اسکولی امتحانات کے علاوہ مسابقاتی امتحانات میں طالبات اپنے ساتھی طلبہ سے آگے نظر آرہی ہیں ۔ لڑکیاں پڑھائی کے معاملے میں تیز اور ذہین ثابت ہورہی ہیں ۔ کئی دوردراز اور پسماندہ علاقوں کی لڑکیاں بھی لڑکوں سے آگے جارہی ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کررہی ہیں ۔ لڑکی بچائو اور لڑکی پڑھائو کے ملک گیر پروگرام نے خواتین کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا اور لڑکیاں بڑی تیزی سے ترقی کررہی ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ بعض طبقوں کے اندر اب بھی لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جارہاہے ۔ ایسا بلا وجہ نہیں بلکہ اس طرح کے حالات پائے جاتے ہیں جہاں لڑکیوں کی پیدائش کو پسند نہیں کیا جاتا ہے ۔ پچھلے کچھ سالوں سے لڑکیوں پر گھریلو ظلم وتشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے ۔ یہ بات تکلیف دہ ہے ک سرینگر کے اندر لڑکیوں پر تیزاب پھینکنے کے کئی واقعات پیش آئے اس دوران معصوم اور کم عمر لڑکیوں کو اغوا کئے جانے اور ریپ کے بعد قتل کی وارداتیں پیش آئیں ۔ ان واقعات نے والدین کو سخت خوف زدہ کیا ۔ والدین لڑکیوں کی پیدائش سے نہیں بلکہ ان پر ہورہے ظلم کی وجہ سے خوف زدہ ہیں ۔ ادھر لڑکیوں کی شادی بھی ایک مسئلہ بن رہاہے ۔ کوئی لڑکا نوکری پیشہ کے بغیر کسی لڑکی سے شادی کرنے کو تیار نہیں ۔ اسی طرح جہیز کی رسم نے ایک بار پھر رواج حاصل کیا ہے ۔ آج لڑکے والے لڑکی کے والدین سے پھر جہیز کی مانگ کررہے ہیں ۔ سرکار نے لڑکیوں کی شادی کے لئے انہیں رقم فراہم کرنے کی ایک اسکیم بنائی ہے ۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کے لئے بچت کی مخصوص اسکیمیں بھی موجود ہیں ۔ لیکن حالات میں بہتر تبدیلی نظر نہیں آتی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین پہلے سے بااختیار ہیں ۔ ایسے قانون پائے جاتے ہیں جو کسی بھی لڑکی خاص کر بہو کو تحفظ فراہم کرنے میں معاون چابت ہورہے ہیں ۔ عدالتوں کی طرف سے بھی انہیں سہارا دیا جاتا ہے ۔ لیکن سماج انہیں آج تک قبول کرنے سے انکار کررہاہے ۔
مغرب کے بجائے باقی دنیا میں خواتین کو کم تر مخلوق گردانا جاتا ہے ۔ اس میں کچھ مذہبی حلقوں کے علاوہ پسماندہ گروہوں کا بھی ہاتھ ہے ۔ کوئی مذہبی حلقہ خواتین کو مردوں کے برابر لانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ۔ تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہہ کشمیر کی خواتین باقی علاقوں کی خواتین سے کسی حد تک آزادی پسند اور باعزت خیال کی جاتی ہیں ۔ ان پر عمومی ظلم سے اجتناب کیا جاتا ہے ۔ مردوں کے ساتھ میل جول کو بری نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے ۔ شادی کے حوالے سے ان کی رائے کو اب مقدم سمجھا جاتا ہے ۔ ان کی خرید وفروخت کی کوئی مثال نہیں پائی جاتی ۔ اسی طرح پردہ کے معاملے میں یہاں تشدد سے کام نہیں لیا جاتا ۔ ایک زمانے میں انہیں زبردستی پرد کرنے کی مم چلائی گئی ۔ لیکن وہ مم زیادہ پذیرائی حاصل نہ کرسکی ۔ دبائو ختم ہوتے ہی اس سے نجات حاصل کی گئی ۔ حکومت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ خواتین کو مکمل آزادی دی جائی اور انہیں خود روزگاری کے راستے سے مردوں کے دبائو سے آزاد کیا جائے ۔ اگرچہ سو فیصد کامیابی نہیں مل رہی ۔ ایسا ہونا ممکن بھی نہیں ہے کشمیری سماج کے اپنے کچھ اقدار اور اصول ہیں جہاں خواتین کی محدود آزادی تو پسند کی جاتی ہے ۔ لیکن مکمل آزادی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ یہ ایک اعتدال پسند سماج ہے جہاں مساوات کا اپنا ایک نظریہ پایا جاتا ہے ۔ اس دوران یہ بات بڑی اہم ہے کہ خواتین سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھانے میں پیش پیش ہیں ۔ ان اسکیموں کا وسیع تعارف کرایا جائے اور خواتین بڑے پیمانے پر ان سے باخبر ہوں تو امید کی جاسکتی ہے کہ ان سے فائدہ ضرور اٹھایا جائے گا ۔ سرکار نے امید کے نام سے جو اسکیم پچھلے کچھ سالوں کے دوران چلائی خواتین خاص کر پڑھی ککھی خواتین نے اس کا کافی فائدہ اٹھایا ۔ اگرچہ نتائج اس قدر نہیںمل رہے جتنے ہونے چاہئے ۔ تاہم کوششیں جاری رکھی جائیں تو لوگوں کا ان کے دائرے میں آنا مشکل نہیں ہے ۔