تحریر:شبیر احمد مصباحی
کشمیر سے مراد جموں و پنجاب کی سرحد سے لے کر لداخ اور چین کی سرحد تک کا علاقہ مراد لیا جائے گا ۔ کشمیر کو فردوس ِ بر زمین بھی کہا جاتا ہے ۔ کشمیر کو تاریخ کی کتابوں میں صوفی بزرگوں کا مسکن تو کہیں کہیں ایران ثانی بھی کہا گیا ۔ البتہ ایران ثانی والے قول پر مجھے کلام ہے۔ اور ایک بات کشمیر کو ایران صغیر تو لداخ کو تبت صغیرکا لقب دے دیا گیا تو بھائی جموں کو کیوں اس سعادت سے محروم رکھا جائے آج سے ہم اسے کاشی صغیر کہیں گے۔۔ دنیا کی کوئی ذی روح ایسی نہیں ہوگی جس کی تمنا کشمیر دیکھنے کی نہ ہو ۔ چلئے کشمیر کا تعارف جموں سے شروع کراتے ہیں ۔لکھن پور سے بانہال تک علاقہ جموں کہلاتا ہے ۔ جموں کا رقبہ تقریباً ۹۸۸۰ مربع میل ہے ۔ یہاں کی مقامی بولی ڈوگری ہے ۔جموں کو سسنکرت میں دوگرت کہتے ہیں جس کا مطلب دشوار گزار راستوں والا علاقہ اور ڈوگر میں بولی جانی والی زبان ڈگری ہوئی ۔ یہ زبان لسانی اعتبار سے پنجابی اور اردو سے قریب ہے ۔اگر آپ ٹرین یا بس سے سفر کرتے ہیں تو جموں کی پہچان کرنے کا یہ طریقہ آسان رہے گا کہ جموں میں آپ کو ہر دو ،چار قدم پر ایک مندر ملے گا ۔جموں کو مندروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے ۔ مشہور روگوناتھ مندر یہیں واقع ہے۔ اکثر لوگ ماتھے پہ لال ٹیکا لگائے ملیں گے اور ہاتھوں میں لال لال دھگے باندھے ہوں گے۔ رام ، سیتا اور ہندئوں کے مقدس بھگوانوں کی تصاویر سے دکانداروں نے اپنی دکانوں کو آرستہ کیا ہوا ہوگا ۔ دکانوں میں اگر بتی یا کوئی اور مشک ضرور جل رہی ہوگی ۔بسوں میں سوار ہوں گے تو یاد رکھیے گا پنجابی گانے چل رہے ہوں گے ۔اگر ایسا ہوا تو سمجھ لینا جموں میں ہیں ۔مشہور توی تو اب بہت حد تک خشک ہوچکی ہے ۔لیکن اس کے اوپر جدید ٹکنالوجی کی مدد سے بنایا گیا پل موجود ہے جس سے اندازہ لگا سکتے ہیں انسانوں نے اس دریا کو کس کس جانب سے پی کر اپنے لئے آرائش کے سامان پیدا کئے ہیں ۔ کٹرا کا مشہور مندر ،ویشنو دیوی مند ربھی یہیں جموں میں واقع ہے اور مانسر جھیل کے ساتھ ساتھ باغ ِ بہو بھی آپ کو یہیں ملے گا ۔لوگ کرتا پاجامہ ،شلوار قمیص زیب تن کئے ہوئے ملیں گے ۔سادھو ،سنت بھی زیادہ دیکھائی دیں گے۔لوگ یہاں کے سچے اور مکان پکے ملیں گے۔ ایک طرف سے دیکھیں تو ہندوستان میں یہ واحد ریاست ہے ۔جہاں ہندو،مسلم ،بودھ ،سیکھ سبھوں کی پہچان الگ الگ اور علاقے بھی مکمل تقسیم شدہ ہیں ۔ البتہ پنڈت اور سکھوں کو علاقہ وسیع نہیں ہے۔
اس کے 300کلو میٹر بعد کشمیر ملے گا ۔یہاں کہ پہچان بھی بتائے دیتے ہیں بانہال ٹنل کے ختم ہوتے ہی آپ کوایک الگ دنیا میں قدم رکھنے کا احساس کریں گے ۔ہر طرف ہرے بھرے کھیت ،درختوں میں چنار کا خوبصورت درخت نمایاں نظر آئے گا ۔ اگر گرمیوں میں آئیں گے تو لوگوں کو کرتا پاجامہ پہنے دیکھیں گے اوررعورتوں کو بھی شلوار قمیص میںملبوس دیکھیں گے۔ ہاں سردیوں میں فرن یہاں کا پسندیدہ لباس تو کانگڑی گرمی پیدا کرنے کا مخصوص آلہ مانا جاتا ہے۔ لوگوں کی زبان سے لفظ ’’ چھو ‘‘ اور ان ۔جیسے کران ۔پکان ۔وغیرہ زیادہ سنائی دے گا ہاں ایک اور سب سے بڑی پہچان یہ ہے کشمیر کی آپ کو ہر دو قدم میں مسجد یا کسی صوفی کی مزار تو ملے گاہی ہر دوقدم میں فوجی وردی میں کچھ سپاہی اور خار دار تار سڑکوں پر ضرور نظر آئے گا ساتھ میں فوجی بنکر کا بونس الگ سے ۔ ہاں خداداد حسن ِنسواں کے لئے بھی کشمیرکو مصر اور ایران کے بعد مقام ملا ہے ۔ اگر سنی سنائی اور کہی کہائی پر بھروسہ نہ کروں تو میرا کشمیر اس سلسلے میں اول مقام رکھتا ہے ۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ایران و مصر میں گیا نہیں ہوں ۔ بہرحال یہاں آپ کو نشاط شالیمار کی روپ میں مغلیہ تعمیرات کا مزا تو ملے گا ہی ساتھ میں گارڈن اور گل مرگ ،سونہ مرگ اور بھی دیگر سیاحتی مقامات کی بھر مار ملے گی ۔ دوسری طرف روح کو تسکین فراہم کرنے کیلئے مخدوم صاحب ،دستگیر صاحب ،چرار شریف اور حضرت بل جیسے مقامات بھی آپ کو وادی کشمیر میں ہی ملیں گے۔۔صحت کا خیال رکھتے ہیں تو پھل فروٹ میں سیب ،آخروٹ ،انجیر ،بادام کے ساتھ ساتھ یکخنی اور وازوان یہاں کی مشہور پکوان ضرور کھالیں ۔۔ چند دن یہاں ضرور گزاریں لیکن تیسرے خطے لداخ آنا نہ بھولیں ۔ہاں ایک اچھی بات جاتے جاتے بتادوں کہ آپ کو اگر سکوں کی اہمیت پتہ نہ ہوتو یہاں پتہ چل جائے گی کشمیری نہ کسی کا ایک روپیہ کھاتے ہیں نہ چھوڑتے ہیں ۔ سکے لے لے کر آپ کا جیب بھر جائے گا اس لئے یہاں بچوں میں پیسوں کو مٹکے میں ڈال کر جمع رکھنے کا رواج زیادہ ہے۔
کشمیر سے ایک سو کلو میٹرچلنے کے بعد آپ کو ایک درہ ملے گا جسے ’’درہ زوجیلہ ‘‘ کہتے ہیں اسے لداخ کا دروازہ بھی کہاجاتا ہے۔ یہ وہیں پہاڑی درہ ہے جس کی وجہ سے لداخ سردیوں کے چھ ماہ باقی دنیا سے کٹا رہتا ہے ۔جس کی وجہ سے ایک طرح سے زوجیلہ بہت بدنام بھی ہے۔ یہاں سے آپ کو بنجر فلک بوس پہاڑ ملیں گے۔ سب سے پہلے آپ کو دراس ملے گا جو اپنی سخت سردی و برف باری کی وجہ سے پوری دنیا میں سردی کیلئے بدنام شہروں میں سائبریا کے بعد دوسرے مقام پر پوری آب وتاب کے ساتھ فائز ہے ۔ دوسری جس چیز کے لئے دراس مشہور ہے وہ بھی کوئی اچھی چیز نہیں ہے وہ ہے جنگ 1999کی جنگ جس میں ہندوستان و پاکستان نے کچھ دنوں کے لئے طاقت آزمائی کی تھی ۔ جو بعد حماقت بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئی ۔ ۔ یہاں سے 60کلو میٹر دور کرگل آئے گا جو کہ غالباً 1999کی مذکورہ جنگ کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے ۔مختصر اور تنگ مارکیٹ یہاں کہ نشانی ہے ۔لوگ چھوٹے قد کے ملیں گے مگر دل بڑا اور مہمان نوازی و شرافت انہیں وراثت میں ملی ہے ۔ ۔ ۔ یہاں سے کوئی دوسو پنتالیس کلو میٹر دور جائیں گے تو آپ کو لہہ ملے گا چونکہ یہاں بودھ لوگ اکثریت سے رہتے ہیں تو مارکیٹ سے لے کر گھروں تک میں فن تعمیر میں آپ کو بودھ مذہب کی نشانیاں ملیں گی ۔قدم قدم پر آپ کو گونمپے اور لامے ملیں گے۔بزرگ لوگ ہاتھو ں میں مذہبی تسبیاں و چولہے لے کر گھوماتے ملیں گے ۔لہہ کی دیہاتوں میں آپ کو نوجوان کم ملیں گے یہاں جوان تعلیم تو بزرگ گھروں کی رکھوالی یا اپنے آخری دن گنتے ملیں گے۔۔لداخ کو تبت صغیر بھی کہتے ہیں ۔
دراس سے لیکر لہہ تک کی پہچان خطہ لداخ کے طور پر ہوتی ہے تو یہ بھی بتادیں یہاں کہ مشہور چیز خوبانی اور چینی کپ و تھرماس ہیں ۔ اس کے علاوہ شئے مسجد ،پنگوم لیک ،نوبرا ویلی ،لاما یورو ،دماسنا ،مینا مرگ ،مشکوہ ویلی،وار میموریل کرگل ،وار میموریل دراس ،تولولینگ ،چو گا چومواور منشی حبیب اللہ میوزم دیکھنے قابل مقامات ہیں ۔ ۔بڑے بڑے پکے مکانات اور سچے لوگ اس خطہ میںبھی آپ کو ہر قدم پر ملیں گے۔ البتہ بولی اردو ،شینا اور بلتی اور بودھی بولتے ہیں ۔ ۔
پوری ریاست جموں کشمیر میں ایک بات یکساں ہے کہ یہاں آپ بلا خوف و خطر گھوم پھیر سکتے ہیں ۔جیب کترے ،چور ڈاکیت یہاں بالکل نہیں ملتے ہیں ۔ دکاندار یا گاڑی والے بھی شکل دیکھ کر کرایہ متعین نہیں کرتے ہیں ۔ہاں کبھی کبھی چند آٹو والے اس کار ِ ثواب میں مبتلاء ملتے ہیں ۔ لیکن ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہر شہر میں ملتے ہیں ۔۔ہاں شکارا صرف سر ی نگر تو سیب اور آخروٹ پوری ریاست میں ملتے ہیں جاتے جاتے شکارا ضرور چڑھ لینا اور ایک پیٹی سیب اور جیب اجازت دے تو پانچ کلو آخروٹ اور ایک شال ضرور لے لیجئے گا ورنہ زندگی بھر پچھتاوا رہ جائے گا ۔۔۔۔
نوٹ ۔۔۔۔ جموں وکشمیر اب تقسیم ہوچکا ۔لداخ الگ یوٹی ہے ۔