تحریر:فاروق بانڈے
جھونکے نسیم خلد کے ہونے لگے نثار
جنت کو اس گلاب کا تھا کب سے انتظار
جب وادی کے معروف قلم کار نذیر جوہر کی رحلت کی خبرآئی تو ایک عجیب سی کیفیت مجھ پر طاری ہوئی۔مجھے ایک ایسا چہرہ سامنے آیا جو تقریباََ پندرہ برس قبل میں نے دیکھا تھا اور دیکھتے ہی میرے منہ سے بے ساختہ نکلاـ’’ واہ،کیا پرسنیلٹلی ہے‘‘۔ خوبصورت چہرہ،بڑی بڑی آنکھیں، بات کرنے کا سلیقہ اور نقطہِ نظر پیش کرنے کا ڈھنگ، سب کچھ مجھے لاجواب لگا۔ ایک روز میں روزنامہ چٹان کے آفس میںگیا تو ایڈیٹر طاہر محی الدین صاحب کے آفس میں اس شخص کو ایڈیٹر صاحب کے ساتھ محوِ گفتگو دیکھا۔ اس سے قبل میں نے اس شخص کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ کوئی ادبی بحث کر رہے تھے اور بات ضتم کرنے کے بعد وہ کچھ سیاسی باتیں بھی کرنے لگے۔ چونکہ میں نہ توکوئی ادیب تھا اورنہ ہی کوئی سیاست دان،کہ کوئی بات کرتا،تو میں نہایت سنجیدگی کے ساتھ ان کی باتیں سنتا رہا۔ان کی گفتگو سے مجھے یہ پتہ چلا کہ انہوں نے کوئی کتاب شائع کی ہے اور اس کتاب کے متعلق بھی باتیں ہو رہی تھیں۔’ یہ نہ تھی ہماری قسمت‘ ناول تھی اور بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ ان کی پہلی ناول تھی۔ ان کے وہاں سے رخصت ہونے کے بعد طاہر صاحب نے مجھے ان کے بارے میں جب بتایاتو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے علاقے میں اتنا ٹیلنٹ ہے۔ان کے بھائی مشتاق احمد لون صاحب کو میں سوپور کالج کے دور سے جانتا تھا، وہ میرے چھوٹے بھائی کے کلاس فیلو تھے اور اکثر علیک سلیک ہوتی تھی،جبکہ ان کے ایک اور برادرِصغیر کے ساتھ بہت دفعہ ملاقات ہوئی تھی جبکہ نذیر جوہر کو اس روز پہلی دفعہ دیکھااور چند رسمی باتیں ان کے ساتھ ہوئی۔سوشل میڈیا کے آنے کے بعد ہم فیس بُک فرنڈس بنے اور تب سے ان کے خیالات اس میڈیم کے ذریعے مجھ تک بھی پہنچتے تھے ۔نذیر جوہر نہ صرف وادی کشمیر کے بلکہ برصغیر کے ار دو کے ایک مشہور افسانہ نگار تھے جن کے افسانے مقامی اخبارات و جرائد کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مشہور اور معروف رسائل کے بھی زینت بنتے تھے۔ مرحوم ضلع کپوارہ کے ایک خوبصورت علاقے لولاب کے سوگام قصبہ سے تعلق رکھتے تھے۔ مرحوم نذیر جوہر کئی کتابوں کے مصنف تھے اور ادبی حلقوں کے روحِ رواں بھی تھے۔حال ہی میں ان کی دو کتابیں،افسانہ مجموعہ ـ’ اور بھی غم ہیں‘ اور سرگزشت۔جلداول’ باتیں ہیں باتوں کا کیا‘ شائع ہوکر آئی ہیں تاہم ان کی علالت کی وجہ سے ان کی رسمِ رونمائی نہیں ہو سکی۔مرحوم محکمہ فوڈ سپلائز میں ا سسٹنٹ ڈائریکٹر کے بطور سبکدوش ہوئے تھے اور آجکل اپنا زیادہ وقت ادبی تخلیقات کو آگے بڑھانے میں گزراتے تھے۔ادبی حلقوں میں وہ ایک زیرک شخص تھے اور اپنے قلم کے زور سے وہ اپنے دل کی بات لوگوں تک پہنچاکر ان میں سماجی بیداری جگانے کی کوشش کرتے تھے۔ان کے کئی افسانوں میں سماج میں پائی جانے والی خرابیوں کا ذکر ہوتا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ان سب واقعات کو دیکھ کر کافی فکرمند تھے، جس کی مثال حال ہی میں شائع کی گئی افسانہ مجموعہ’ اور بھی غم ہیں‘ میں درج کئی افسانوں سے ہوتا ہے۔جیسے’گلاب کوٹھی‘، کوئی ہمیں رُلائے کیوں‘، تماشے روز روز کے‘ وغیرہ ۔ وہ ایک درد مند دل رکھتے تھے، اور معاشرے کے تئیں ھمدردی کاجذبہ رکھتے تھے جس کا برملا اظہار وہ اپنے افسانوں میں کرتے تھے۔ سیاست اگرچہ کہ ان کے گھر کی لونڈی تھی مگر انہوں نے کبھی بھی سیاست کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیااور تمام عمر ایک سادہ زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ان کے چھوٹے بھائی مشتاق احمد لون صاحب ممبر اسمبلی کے ساتھ ساتھ وزیر بھی رہے،ان کے فرزند قیصر جمشید لون ، ممبر اسمبلی و قانون ساز کونسل کے ممبر،ان کے دوسرے فرزند ناصر نذیر لون ڈی ڈی سی ممبر ہیں، مگر اپنے آپ کو انہوں نے سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی اور اقتدار کے ’نشے‘ کو اپنے اوپر کبھی حاوی ہونے نہیں دیا۔
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
اس سال 9 مارچ کو ان کا جنم دن تھا جو اس نے دلی کے ایک معروف ہسپتال میں زیر علاج رہ کر منایا۔اس روز انہوں نے اپنے یاروں، دوستوں،چاہنے والوں اور خیرخواہوں کو سوشل میڈیا پر اپنے خیالات و جذبات کا ایک بہتریں پوسٹ پہنچایا جو کہ ان کا اس طرح کا آخری پوسٹ ثابت ہوا۔ انہوں نے لکھا تھا’’ ۔
9 مارچ میرا جنم دن ہے اور میں فی الوقت دہلی میں قائم ایشیا کے ایک بڑے اسپتال ” انسٹیچوٹ آف لیور اینڈ بلیری میڈیکل سائینسز دہلی ” میں داخل دیگر مریضوں کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ لڑرہا ہوں۔ زندگی اور موت میرے دائیں بائیں کھڑی ہے۔ میں موت یا کسی آور صعوبت سے نہیں ڈرتا اور میں اللہ کے فضل و کرم سے اس کھیل کو کتنا آسان لے رہا ہوں۔ یہ حوصلہ میرے رب کا بخشا ہوا ہے۔ یہی میری زندگی کے اب تک کے سفر اور فلسفے کا ماحصل ہے۔ میں نے ہمیشہ زندگی اور موت کو اپنے دائیں بائیں بڑے قریب سے محسوس کیا ہے اور زندگی کی خوشیوں اور صعوبتوں کو بڑی خندہ پیشانی سے منایا اوربرداشت کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میرے عزیز و اقارب اور رفقاء وغیرہ اس وقت میرے لئے کافی پریشان ہیں اور میری صحت کیلئے دست بدعا ہیں۔ مجھے آپ کی دعائیں ضرور چاہیئں جبکہ رحم اور ہمدردی کے الفاظ کی بیساکھیوں سے میں ہمیشہ مُتنفر اور مُتصادم نظر آیا ہوں۔ میرا اللہ اور میرے احباب انشا ء اللہ میری طاقت ہیں اور اللہ جو کرتا ہے یقیناََصحیح کرتا ہے۔ صحیح سلامت گھر آنا نصیب ہوا تو انشائاللہ ضرور ملاقات ہوگی۔ بس آپ اپنے خلوص، محبتوں اور پیار سے نوازیں۔ وسلام ۔بہاریں ساتھ لاؤں گا اگر لوٹا بیاباں سے۔اپنی دعاوں میں شامل رکھیں۔
ان کی رحلت سے تین روز قبل مجھے لولاب کے ایک سنیئر معالج،ڈاکٹر عبدالرشید میر ملے جو ان کا معائنہ کر کے آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی تک اپنے مضبوط قوت ارادی’will power‘ کے بل پر ہی جیے رہے ہیںاور کب تک وہ اس جنگ کو جاری رکھ پائیں گے،کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
بیاباں (ہسپتال )سے تو وہ لوٹ آئے مگر اتنا تھک چکے تھے کہ ’بہاریں‘ ساتھ نہ لاسکے۔ میدان ادب کا یہ شہسوار آج اپنے چاہنے والوں کو داغِم مفارت دیکرٹنوں مٹی کے نیچے دفن سکون سے سو رہے ہیں۔ آخر پر میں یہ کہوں گا کہ اچھے لوگ کبھی نہیں مرتے وہ اپنی جسمانی صورت سے تو آزاد ہو جاتے ہیں لیکن ان کی یادیں دلوں میں ہمیشہ گھر کئے رہتی ہیں اور ہم انہیں وقتا فوقتا یاد کرتے رہتے ہیں
مرحومہ پروین شاکر کا یہ شعر شاید نذیر جوہر صاحب کے لئے ہی لکھا گیالگتا ہے۔
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا