تحریر:ڈاکٹرامتیازعبدالقادر
انسان کوجن نعمتوںسے نوازاگیاہے؛ان میںایک عقل ودانائی بھی ہے۔قانونِ اسلامی کے ماہرین اورفلاسفہ نے لکھاہے کہ شریعت کے تمام احکام بنیادی طورپرپانچ مقاصدپرمبنی ہیں؛دین کی حفاظت،جان کی حفاظت،نسل کی حفاظت،مال کی حفاظت اورعقل کی حفاظت۔گویاعقل اورفکرونظرکی قوت کوبرقراررکھنااوراسے خلل اورنقصان سے محفوظ رکھنااسلام کے بنیادی مقاصدمیںسے ایک ہے۔چنانچہ اسلام میںجن کاموںکی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اورجن سے منع فرمایاگیاہے،ان میںایک نشہ کااستعمال بھی ہے۔قرآن نے نہ صرف یہ کہ اس کوحرام بلکہ ناپاک قراردیا ہے۔ اللہ تعالٰی کاارشادہے:
ترجمہ:’اے ایمان والو!شراب اورجوااوربت اورفال کے تیرسب شیطان کے گندے کام ہیں،سوان سے بچتے رہوتاکہ تم نجات پائو۔ ‘ (المائدہ:۹۰)
انسان کاسب سے اصل جوہراس کااخلاق وکردارہے ؛نشہ انسان کواخلاقی پاکیزگی سے محروم کرکے گندے افعال اورناپاک حرکتوںکامرتکب کرتی ہے۔احادیث میںبھی اس کی بڑی سخت وعیدآئی ہے اورباربارآپ ﷺ نے پوری صفائی اوروضاحت کے ساتھ اس کے حرام اورگناہ ہونے کو بتایا ہے، آپﷺنے فرمایا:’ہرنشہ اورچیزحرام ہے۔‘(بخاری؛عن عائشہؓ)
سورۃالمائدہ آیت ۹۰ میں ’خمر‘کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو خاص طور سے قابل توجہ ہے۔ ’خمر ‘عربی زبان کا لفظ ہے جس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عقل پر پردہ ڈال دے۔ اس لفظ کے بارے میں حضرت عمرؓ نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا کہ ’خمر اس چیز کو کہتے ہیں جو عقل پر پردہ ڈال دے۔‘ اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ شراب اور عقل میں کیا تعلق ہے۔ وہی اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے کسی مخصوص قسم کی شراب ہی کو حرام نہیں قرار دیا ہے بلکہ اس کے دائرے میں ہر وہ چیز شامل ہے جو نشہ آور ہو اور انسان کی سوچنے سمجھنے کی قوت کو زائل یا متاثر کر دے۔
نشہ کاسب سے بڑانقصان صحت کوپہنچتاہے۔اطباء اس بات پرمتفق ہیںکہ شراب ودیگرمنشیات ایک سست رفتارزہرہے؛جوآہستہ آہستہ انسانی جسم کوکھوکھلااورعمرکوکم کرتاجاتاہے۔انسان کی زندگی اس کے لئے امانت ہے،نشہ کا استعمال اس امانت میںخیانت کے مترادف ہے۔
منشیات کی مضرتوںکاسماجی پہلویہ ہے کہ انسان سماجی حیوان ہے؛جس سے مختلف لوگوںکے حقوق اورذمہ داریاںمتعلق ہیںلیکن نشہ انسان کوگردوپیش سے بے خبراورغافل بنادیتاہے اوراس بدمستی میںنہ اسے لوگوںکے حقوق یادرہتے ہیںنہ اپنے فرائض وواجبات۔
رسول اللہﷺنے شراب کو’ام الخبائث‘(نسائی)اور’ام الفواحش‘(ابن ماجہ)قراردیاہے۔ایک موقعہ پرآپﷺ نے ارشادفرمایا:’جیسے درخت سے شاخیںپھوٹتی ہیں؛اسی طرح شراب سے برائیاںجنم لیتی ہیں۔‘(سنن ابن ماجہ،عن خبابؓ)ایک اورمقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا:’ شراب کے پینے اور پلانے والے، اس کے بیچنے اور خریدنے والے، اس کے نچوڑنے اور نچوڑوانے والے، اسے لے جانے والے اور جس کے لیے لے جائی جائے سب پر اللہ کی لعنت ہو۔ ‘( ابودائود:۳۶۷۴)
وادی کشمیر میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور اسلام میں منشیات کا استعمال حرام قرار دیا گیا ہے لہٰذا اس برائی کے خاتمے کے لئے مذہبی مبلغین کواپنی توانائیاںصرف کرنی چاہئے۔وقت کاتقاضاہے کہ فروعی مسائل میںقیمتی وقت ضائع کرنے کے بجائے ترجیحاتی بنیادوںپراس سُلگتے ناسورپرغوروفکرکرکے نسلِ نوکی حفاظت وآبادکاری کے اقدامات اٹھائیںجائیں۔ہرمکتبِ فکرکے مبلغین ، ائمہ مساجد و دیگر دینی تنظیموں کو اس سلسلے میں حساس ہونے کی ضرورت ہے اور مطلوبہ نتائج جلد حاصل کرنے کے لئے ان کے اثر و رسوخ سے پورا فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔
نشہ جسمانی ،مالی،سماجی اوراخلاقی ہرپہلوسے انتہائی مضرت رساںچیزہے۔اس وقت نوع بنوع منشیات کی کثرت اوراس کے استعمال میںجوعموم پیداہورہاہے،وہ حددرجہ تشویشناک بات ہے۔
٭ جموںوکشمیرمیںمنشیات کی وباء :
اقوامِ متحدہ کے بین الاقوامی ڈرگ کنٹرول سروے کے مطابق ۲۰۰۸ء میںکشمیرکے ستّرہزارسے زائد نشے کے عادی افرادتھے اوراب سرکاری اعدادوشمارکے مطابق جموںوکشمیرمیںچھ لاکھ افرادیعنی آبادی کا4.5فیصدحصہ اس لت میںمبتلاہے۔منشیات کے متاثرین میں ۹۰ فیصد سے زیادہ کی تعداد ۱۷ سے ۳۳ سال کے عمر کے نوجوانوں کی ہے ۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کے اعداد و شمار کے مطابق اسپتال میں آنے والے منشیات کے مریضوں کی تعداد میں ۲۰۱۴ سے ۲۰۲۱ تک ۱۰۰ گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔ کشمیر کے اسپتالوں میں ۲۰۲۱ میں منشیات کے مریضوں کی تعداد میں پچھلے سال کے مقابلے میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ شری مہاراجہ ہری سنگھ اسپتال(SMHS)سرینگر میں قائم منشیات کے مریضوں کی خدمت کے لئے وقف ادارہ میں موجود ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کہ منشیات کے نتائج سے پیدا شدہ صورتحال بد سے بد تر ین شکل اختیار کر رہی ہے ۔ معاملہ صرف شراب نوشی کا نہیں ہے جس کی تقریباً ۲۰ کروڑ سے زیادہ بوتلیں ہر سال جموں و کشمیر میں استعمال کی جاتی ہیں بلکہ نت نئی قسم کی منشیات نے نئی نسل کا جینا دو بھر کر دیا ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں درونِ نس نشے(Intravenous Heroin ) میں ۳۴۰ فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ڈاکٹر یاسر راتھر جو کہ گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کے Drug De-Addiction سینٹر کے ناظم ہیں کا کہنا ہے کہ’ نئی قسم کے Heroin کا بڑھتا استعمال منشیات کے وباء میں اک نئی وباء کا آغاز ہے ؛جس کے نتائج Hepatitis اور AIDSسے بھی خطرناک ہیں ۔‘ جموں کشمیر میںافیوم ( (Opium کا استعمال لاکھوں کی تعدادمیں لوگ کررہے ہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ منشیات کی بدعت ہمارے اطراف و اکناف میں پھیل چکی ہے اور تقریباً ہر علاقے میں منشیات کادھندہ کرنے والوں کا ایک مافیہ نیٹورک وجود میں آچکا ہے جو پیسوں کی لالچ میں نوجوانو ں کو اپنے مذموم منصوبوں کا شکار بنا رہے ہیں ۔ منشیات کا گھنائونا دھندا کرنے والے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی لالچ میں سماج کو اخلاقی ، معاشی، سماجی، معاشرتی ، نفسیاتی اور جسمانی طور اپاہچ بنا دینا چاہتے ہیں۔ یاد رہے منشیات سے دماغ مریض ہو جاتا ہے اور جسم و روح اپنی قوت کھو بیٹھتے ہیں، نتیجے کے طور پر سماج میں بے اخلاقی ، بے راہ روی ، چور ی و ڈاکہ، گھریلو تشدد، غنڈہ گردی اور سماج مخالف حرکتیں عروج کو پہنچتی ہے ۔ ایسے سماج میں نہ بزرگوں کی عزت محفوٖظ ہے اور نہ خواتین کی عصمت بلکہ یہ سماج انسانیت کا دشمن قرار پاتا ہے ۔
ایسی صورتحال میں وقت آگیا ہے کہ منشیات کے خلاف صف آرا ہوا جائے اور ایک منصوبہ ساز طریقے سے ایک اجتماعی لائحہ عمل بنایا جائے تاکہ اس طوفانِ بدتمیزی کا مقابلہ کیا جاسکے ۔ سماجی اداروں اور حکومت پر زور دیا جائے کہ وہ منشیات کے فروغ کو روکنے میںموثر اقدامات کریں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور دیا جائے کہ ڈرگ مافیا کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائی کی جائے ۔ اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزار کر ان کے مسائل سمجھنے کی کوشش کریں ، ان کے ذہنی بوجھ کو ہلکا کریں، ان کو منشیات کے نقصان سے آگاہ کریں اور اگر کوئی اس وباء کا شکار ہوا ہے تو انہیں ضروری رہنمائی فراہم کریں۔میڈیابھی سماج کے تئیںاپنے فرائض کاادراک کرکے منشیات کا دھندا کرنے والوں کوبے نقاب کرے اور ان کے عزائم سے پردہ کشائی کرے ۔
مذہبی تنظیموں اور ائمہ کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سماج کے سامنے اسلا م کا نقطہ نظر پیش کریں۔ او رانہیں بتائیں کہ اسلام نشہ آور چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے ۔ لوگوں کو آگاہ کریں کہ شریعت کے تمام احکام بنیادی طور پر پانچ مقاصد پر مبنی ہیںجن میںجان کی حفاظت،مال کی حفاظت اور عقل کی حفاظت غیرمعمولی اہمیت کاحامل ہیں اور یہ کہ منشیات ان تمام مقاصد کو فوت کر دیتے ہیں ۔ انسان کا اصل جوہر اس کے اخلاق اور کردار ہیں اور منشیات انسان کو اخلاقی پاکیزگی سے محروم کر کے گندگی اور ناپاکی میں دھنسا دیتے ہیں۔مسلمانوں کو بتا یا جائے کہ رسول اللہ ,ﷺ نے ہر نشہ آور چیز کو حرام قرار دیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ جس شئے کی زیادہ مقدار نشے کی باعث ہو اس کی کم مقدار بھی حرام ہے۔ (ترمذی) رسول اللہ ﷺ نے منشیات کے ساتھ ساتھ ایسی چیزوں سے بھی منع فرمایاہے جو جسم کے فتور کا باعث ہوں ۔(ابو دائود)
منشیات سماجی بگاڑ کو جنم دیتے ہیں ۔ منشیات سے متاثرہ لوگ شادی بیاہ، میاں بیوی، والدین، اولاد کی ذمہ داریوں نیز دیگر فر ائض و واجبات کو بھی بھول جاتے ہیں۔ نشہ انسان کو بدمست کر دیتا ہے اور اس کو قاتل ، عصمتوں کا لُٹیرا ، ظالم ، سب و شتم کرنے والا اور بدزبان بنادیتا ہے۔ انسان حیا سے محروم ہو جاتا ہے اور سماج کے لئے ناسور بن جاتا ہے ۔
مغربی ممالک میں منشیات نے خاندانی نظام کو توڑ دیا ہے ، سماجی روابط کو کمزور کردیا ہے، رشتوں کو بکھیر دیا ہے اور عوام کو ذہنی و قلبی سکون سے محروم کر دیا ہے ۔ اتنی تباہ کاریوں کے باوجود مشرق کے لوگ بالخصوص نوجوان نشے کو مغربی فیشن کے طور پر اختیار کر رہے ہیں۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ جمعہ کے خطبوں اوردیگر دینی مجالس میں سماج کو منشیات کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیاجائے اور عوامی بیداری کی ایک مہم چلائی جائے۔ وہ لوگ جو منشیات کے پھیلائو میںممدو و معاون ہیں ان کے ہاتھ روک دیے جائیں اور نوجوان نسل کے ساتھ سنجیدہ مکالمہ شروع کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ جمعہ کے موقعہ پر عوام ہمارے باتوں کو سنجیدگی کے ساتھ سنتے ہیں اور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں عوام کو بتانا چاہئے کہ منشیات کے سنگین مسئلے سے نپٹنے کے لئے انفرادی کاوشیں کار گر ثابت نہیں ہو سکتیں لھٰذاتمام سماجی و انتظامی اداروں کو مل جُل کر کام کرکے اس وباء کو جڑ سے اُکھاڑنے میں اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔
غیرمسلم برادری بھی اس سوسائٹی کاجزوِلاینفک ہے اوریہ وباان کے گھروںمیںبھی دستک دے چکی ہے۔نیکی کے اس کام میںانہیںبھی اجتماعی فوائدکاادراک کرکے منشیات کے خلاف منظم طریقے پر صف آراہونے کی ضرورت ہے۔ہرمذہب اورانسانیت کاہرسبق نشہ کوغلیظ وناپاک تصورکرتاہے۔سکھ مذہب میںنشہ کرنے کی ممانعت ہے۔ہندومذہب میںبھی اس کی ممانعت کاحکم موجودہے۔رِگ ویدمیںنشہ کرنے والے کوگناہ گارتصور کیاگیا ہے۔(۶۔۵۔۱۰)
پالیسی سازاداروںکومنشیات کے خاتمے کے لئے سخت ترین قوانین بنانے ہوںگے اوران پرعمل کرناہوگا۔ہماری نوجوان نسل ہی ہمارے مستقبل کااثاثہ ہے۔اپنی بقاکے لئے ہمیںاس قیمتی اثاثہ کوکسی بھی حال میںبچاناہوگا؛اسی میںہماری خوشحالی اورترقی کارازپنہاہے اوراللہ کی بارگاہ میںخلاصی کاایک سبب بھی۔
ادارہ فلاح الدارین بارہمولہ نے ۸مئی سے ۱۴مئی۲۰۲۲ء تک’ منشیات مخالف مہم ‘منعقدکیا؛جس میں اس میدان کے ماہرین کی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کرکے اسکولوں او ر کالجوں میں منشیات مخالف آگاہی عام کی گئی ۔ مہم کے دوران سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے منتظمین ، صحت عامہ سے وابستہ افراد ، نوجوانوں اور خواتین انجمنوں کے ساتھ بھی گفتگوہوئی۔یہ ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے اور اللہ کے حکم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا تقاضا بھی ہے کہ سماج میں بڑھتی منشیات کی وباء ہمارا موضوع بنے اوراس سکے تدارک کے لئے تدابیرکریں۔